موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
ہمیں بتایا گیا کہ یہ چیز جو تمہیں محسوس ہورہی ہے یہ اللہ کی جانب سے ہے لہٰذا اللہ ہی کی تعریف کرنی چاہئے۔جس اللہ کے لیے تعریف ہوگی اُسی اللہ کی عبادت بھی ہوگی۔حق تعالیٰ شانہ،نے پہلے ہی جملے میں مسلمانوں کو یہ سبق دے دیا کہ تعریف در اصل میری ہونی ہے،کیونکہ میں ہی ہر چیز کا بنانے والا ہوں ۔اور میں ہی اس میں نفع اور نقصان رکھنے والا ہوں۔باری تعالیٰ کی حمد کیوں؟ الحمدللہ میں جب اللہ پاک نے اپنی تعریف کرنے کے لئے کہا تو سوال یہ پیدا ہواکہ تعریف اللہ کی کیوں کرنی ہے؟اس کا جواب اللہ پاک نے اسی آیت میں دیا ہے،اور وہ ہے’’ربّ العالمین‘‘،ساری تعریف اللہ کے لیے کیوں ہے؟ اس واسطے کہ وہ اللہ ہے،اور اللہ کہتے ہیں ایسی ذات کو جو تمام صفاتِ کمال کی جامع ہو۔اور حقیقۃً تعریف اُسی کی ہوتی ہے جس میں صفاتِ کمالیہ ہوں۔اور اللہ پاک کا کمال کیا ہے؟اسے اگلے جملے میں بتایا گیا ہےکہ وہ ساری مخلوقات اورسارے عالموں کا پیدا کرنے والا اور ان کو پالنے والا ہے،اور پالنا اور تربیت کرنا اسی کے ہاتھ میں ہوتا ہےجس میں صفاتِ کمالیہ ہوں،اور اللہ ہی کے اندر صفاتِ کمالیہ ہیں(جیساکہ اس کی وضاحت آگے رہی ہے)اس لئے تعریف بھی اسی کی ہوگی،پھر سوال پیدا ہواکہ وہ کیوں ایسا کرنے والا ہے؟اس کا جواب اگلے جملے میں ہے،اس لئے کہ وہ رحمٰن اوررحیم ہے۔وہ کسی مجبوری یا کسی دباؤ یا کسی کی زبردستی کی وجہ سے نہیں پالتا بلکہ محض اپنی رحمت اور مہربانی سے پالتا ہے،اس کی مشیت اور ارادہ ہوا کے میں اپنی مخلوق کو پیدا کرکے انہیں پالوں اس لئے وہ پالتے ہیں۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا احسان مخلوق کے پیدا ہونے سے پہلے سے ہے، کسی نے اللہ پاک سےیہ نہیں کہا تھا کہ آپ ہمیں وجود دے دیجیے اور نہ اللہ تعالیٰ پر کسی کا حق تھا،حق تعالیٰ نے محض اپنی مہربانی اور رحم و کرم سے ہمیں پیدا کردیا۔ اس لیے ’’ربّ العالمین‘‘ کے ساتھ فرمایا کہ وہ رحمٰن بھی ہے اور رحیم بھی ہے۔