موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
علمِ تفسیر کا حکم: شریعت میں علم تفسیر کی حیثیت کیا ہے؟ اور اس کا سیکھنا کیا ہمارے لئے ضروری ہے؟تو اس کو یوں سمجھئے کہ کتبِ سماویہ پر ایمان لانا تو بالاجمال فرضِ عین ہےاور خود قرآن پاک پر اس حیثیت سے کہ ہم اس کے احکام کے مکلف ہیں،(ایمان اجمالی تو فرض عین ہے ) البتہ تفصیلاً ایمان لانا فرضِ کفایہ ہے، اس لئے کہ ایمان فرع ہے علم کی اب اگر ایمانِ تفصیلی فرض عین ہوجائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تفصیلی علم حاصل کرنا بھی فرضِ عین ہے اور جب تفصیلی علم فرض عین ہوگیا تو لوگوں کے ذرائع ِمعاش بیکار ہوکر رہ جائیں گے اس بنا پر علم تفسیر کو فرض کفایہ کے درجہ میں رکھا گیا۔علمِ تفسیر کا مقام اور مرتبہ علم تفسیر کا مرتبہ سب سے اونچا ہے اسی وجہ سے علم تفسیر کو رئیسِ علوم دینیہ کہا گیا ہے اس لئے کہ علم کی شرافت معلوم کے اشرف ہونے سے ہوتی ہے جیسا کہ علم کیمیا اشرف ہے کیونکہ اس کا معلوم اشرف ہے یعنی مٹی سے سونا بنانا، اسی طرح علم تفسیر کا معلوم کلامِ الٰہی کی مراد ہے اور کلام ِالٰہی کی مراد اشرف ہے تمام چیزوں کے مقابلہ میں ،لہذا اس کا علم بھی اشرف ہوگا تمام علوم سے۔۱؎ جب تک آنحضرت ﷺ دنیا میں تشریف فرما تھے اُس وقت تک کسی آیت کی تفسیر معلوم کرنا کچھ مشکل نہیں تھا، صحابۂ کرام کو جہاں کوئی دشواری پیش آتی وہ آپ ﷺ سے رجوع کرتے اور انہیں تسلی بخش جواب مل جاتا، لیکن آپ ﷺ کے بعد اس بات کی ضرورت تھی کہ تفسیر قرآن کو ایک مستقل علم کی صورت میں محفوظ کیا جائے، تاکہ اُمت کے لئے قرآن کریم کے الفاظ کے ساتھ ساتھ اس کے صحیح معنی بھی محفوظ ہوجائیں، اور ملحد و گمراہ لوگوں کے لئے اس کی معنوی تحریف کی گنجائش باقی نہ رہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے اس امت نے یہ کارنامہ اس حسن و خوبی سے انجام دیا کہ آج ہم یہ بات بلا خوف وتردد کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کی اس آخری کتاب کے صرف الفاظ ہی محفوظ نہیں ہیں بلکہ اس کی وہ صحیح تفسیر و تشریح بھی محفوظ ہے جو آنحضرت ﷺ اور آپ ﷺ کے جان نثار صحابہ کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہے۔ ------------------------------ ۱؎ : مناہل العرفان: المبحث الثانی عشر فی التفسير والمفسرين وما يتعلق بهما ،العلوم التی یحتاجھا المفسر۔