موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
پاک کو آخرت کے اعتبار سے رحیم کہاجاتا ہے۔اور چونکہ’’رحیم‘‘کےمعنیٰ خاص رحمت اور تام رحمت کے ہیں تو ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک آدمی دوسرے کے ساتھ خاص رحمت اور مکمل رحمت کا معاملہ کرے اس لئےرحیم کا لفظ اللہ کے علاوہ دوسروں کے لئے بھی جائز ہے۔اسی وجہ سے خود حضورﷺ کے اسمائے گرامی میں رحیم ہے۔ ﴿لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَحِيْمٌ﴾۱؎ ’’آیا ہے تمہارے پاس تم میں کا رسول،بھاری ہے اس پر جو تم کو تکلیف پہونچے،حریص ہے تمہاری بھلائی پر، ایمان والوں پر نہایت شفیق مہربان ہے‘‘۔لفظ رحمن اور رحیم کے بارے میں حضرت عبد اللہ ابنِ مبارکؒ کی تفسیر: حضرت عبد اللہ ابنِ مبارک نے رحمن اور رحیم کی تفسیر میں فرمایا : ’’اَلرَّحْمٰنُ إذَا سُئِلَ أعْطىٰ وَالرَّحِيْمُ إذَا لَمْ يَسْئَلْ غَضِبَ‘‘۲؎ ’’رحمٰن وہ ہے کہ جب اس سے مانگا جائے تو وہ دے دے اور رحیم وہ ہے کہ اس سے نہ مانگا جائے تو غصہ ہوجائے۔ بہر حال جو کوئی حضور ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرےگااور اُن کی اتباع کرے گا تو وہ آخرت کی دائمی رحمت اور اللہ پاک کی اس خصوصی رحمت سے مستفید ہو گا۔تسمیہ میں ان تین اسماء کا ذکر کیوں؟ کسی کام کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنے کی تعلیم کیوں دی گئی ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر کام کے تین مراحل ہوتے ہیں۔(۱)اس کا وجود میں آنا(۲)اس کا باقی رہنا (۳)اس سے فائدہ اٹھانا۔اور اللہ پاک کےیہ تین اسماء ایسے ہیں جن میں سے ہر ایک ان تین کاموں میں سے کسی ایک کا فائدہ دیتا ہے۔کیونکہ اللہ کہتے ہیں ایسی ذات ------------------------------ ۱؎:التوبۃ:۱۲۸۔ ۲؎:روح المعانی:۱؍۲۹۔