موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
اس میں اختلاف ہو کہ کونسا لفظ کس طرح لکھا جائے؟) تو اسے قریش کی زبان کے مطابق لکھنا، اس لئے کہ قرآن کریم انہی کی زبا ن میں نازل ہوا ہے۔‘‘عہد عثمان میں تکمیل شدہ امور: بنیادی طور پر تویہ کام مذکورہ چار حضرات ہی کے سپرد کیا گیا تھا، لیکن پھر دوسرے صحابہ کو بھی ان کی مدد کے لئے ساتھ لگادیا گیا ۔۱؎ ان حضرات نے کتابتِ قرآن کے سلسلے میں مندرجہ ذیل کام انجا دیئے: (۱)حضرت ابوبکر کے زمانے میں جو نسخہ تیار ہوا تھا اس میں سورتیں مرتب نہیں تھیں، بلکہ ہر سورت الگ الگ لکھی ہوئی تھی، ان حضرات نے تمام سورتوں کو ترتیب کے ساتھ ایک ہی مصحف میں لکھا ۔۲؎ (۲)قرآن کریم کی آیات اس طرح لکھیں کہ ان کے رسم الخط میں تمام متواتر قرأتیں سما جائیں، اسی لئے اُن پر نہ نقطے لگائے گئے اور نہ حرکات (زیر زبر پیش) تاکہ اسے تمام متواتر قرأتوں کے مطابق پڑھا جاسکے، مثلا ٗسسرھا لکھا تاکہ اسے نَنْشُرُھَا اور نُنْشِزُھَا دونوں طرح پڑھا جاسکے کیونکہ یہ دونوں قرأتیں درست ہیں ۔۳؎ (۳)اب تک قرآن کریم کا مکمل معیاری نسخہ جو پوری امت کی اجتماعی تصدیق سے تیار کیا گیا ہو صرف ایک تھا، ان حضرات نے اس نئے مرتب مصحف کی ایک سے زائد نقلیں تیار کیں، عام طور سے مشہور یہ ہے کہ حضرت عثمان نے پانچ مصاحف تیار کرائے تھے، لیکن ابوحاتم سجستانی فرماتے ہیں کہ کل سات نسخے تیار کئے گئے تھے، جن میں سے ایک مکہ مکرمہ، ایک شام، ایک یمن، ایک بحرین، ایک بصرہ اور ایک کوفہ بھیج دیا گیا، اور ایک مدینہ طیبہ میں محفوظ رکھا گیا۔۴؎ (۴)مذکورہ بالا کام کرنے کے لئے ان حضرات نے بنیادی طور پر تو انہی صحیفوں کو سامنے رکھا جو حضرت ابوبکر کے زمانے میں لکھے گئے تھے، لیکن اس کے ساتھ ہی مزید احتیاط کے لئے وہی طریقہ کار اختیار کیا جو حضرت ابوبکر کے زمانے میں اختیار کیا گیا تھا، چنانچہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ کی جو متفرق تحریریں مختلف صحابہ کے پاس محفوظ تھیں انہیں دوبارہ طلب کیا گیا اور ------------------------------ ۱؎ : یہ پوری تفصیل اور اس سلسلے کی تمام روایات فتح الباری ص ۱۳ تا ۱۵ ج ۹ سے ماخوذ ہیں۔ ۲؎:مستدرک : ۲ ؍ ۲۲۹۔ ۳؎:مناھل العرفان: ۱ ؍ ۲۵۳ و ۲۵۴۔ ۴؎:فتح الباری : ۹ ؍ ۱۷۔