موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
کرنے سے دل میں نورانیت پیدا ہوتی ہے اور دل تجلیاتِ حق کو قبول کرنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کرنے لگتا ہے۔کیونکہ ہر صحیح راستےپر چلنے سے دل میں صحت اور نورانیت پیدا ہوتی ہے اور ہر غلط راستے سے دل میں کجی پیدا ہوتی ہے۔قرآن و حدیث کا خود سے سیکھنا محض جہالت اور بے وقوفی ہے: بات یہ چل رہی تھی کہ صراطِ مستقیم پر چلنے کے لیے علماء کی ضرورت ہوتی ہے، حضور پاک ﷺ کو علم اللہ پاک نے سکھایا،آپﷺ نے خود سے نہیں سیکھا، پھر آپ ﷺنے صحابۂ کرام کو سکھایا،پھر صحابہ نے تابعین کو سکھایا ،پھر تابعین نے تبع تابعین کو سکھایا،اس طرح سے یہ علم یہ قرآن یہ حدیث ہم تک پہونچی،کسی نے خود سے علم حاصل نہیں کیا۔آج کوئی قرآن پاک اور احادیث مبارکہ خود سے سیکھنے اور پڑھنے کی دعوت دیتا ہے تو گو یا وہ گمراہی کی دعوت دیتا ہے،کیونکہ آدمی خود سے اس کو کیسے سیکھ سکے گا؟ اگر کوئی قرآن شریف سامنے رکھ کر نماز پڑھنا چاہے تو نماز نہیں پڑھ سکتا۔ اگر کسی آدمی کو جس نے کسی مسلمان کو نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا اور نہ خود اُس نے کبھی پڑھی، نہ کسی کتاب میں اُس کی تصویر دیکھی، اُس کے بعد اُس کے سامنے قرآن و حدیث رکھ دیئے جائیں،اور اس سے کہا جائے کہ تم اس میں دیکھ کر نماز پڑھ لو۔تو کیا وہ نماز پڑھ پائے گا۔ اُس کو یہی سمجھ میں نہیں آئے گا کہ رکوع کیسے کرتے ہیں؟ سجدہ کیسے کرتے ہیں؟اس میں جانے کا کیاطریقہ ہے؟رکوع اور سجدہ کے لئےکیسےجھکتے ہیں؟ اورکیسے اُٹھتےہیں؟ تسبیحات کیسے پڑھی جاتی ہیں؟قرآن مجید کب پڑھا جاتا ہے؟ اور کب نہیں پڑھا جاتا؟ تشہد میں بیٹھنے کا طریقہ کیا ہے؟اٹھنے کا طریقہ کیا ہے؟سلام کب پھیرا جاتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ ۔اسے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آئے گا،حالانکہ سب کچھ لکھا ہوا ہے۔ ایسے ہی ایک مثال اور سن لیجئے کہ سورۂ بقرہ کے شروع میں’’الم‘‘ لکھا ہوا ہے اور سورۂ فیل،کے شروع میں بھی ’’الم‘‘لکھا ہوا ہےـاب آپ سورۃ البقرہ کی ابتدائی دو آیتیں لکھ دیں اور سورۂ فیل کی دو آیتیں لکھ دیں۔اور ایک ایسے آدمی کو جس نے کبھی