موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
صبر اور صلوٰۃ سے مدد لینے کا مطلب یہ ہے کہ تم مصیبت میں صبر کرو ،شکوہ و شکایات مت کرو،اوراللہ کے حکم پر جمے رہو ،مصیبتوں کی وجہ سے اللہ کے در کو نہ چھوڑو۔لیکن انہوں نے کچھ کا کچھ سمجھ لیا۔مصیبت میں اظہارِ تکلیف ممنوع نہیں : بہر حال مصیبت اور پریشا نی میں صبر کا حکم ہے،اس سے تکلیف تو پہونچے گی؟ اس تکلیف کا اظہارممنوع نہیں ہے ،بلکہ اس تکلیف اور مصیبت میں واویلا کرنا اور شکوہ شکایات کرنا ممنوع ہے،حضورﷺکی صاحبزادی حضرت زینب کے لڑکےکا وصال ہورہا تھا، آپ ﷺ اُن کو گود میں لیے ہوئے تھے اور آپ کی آنکھ مبارک سے آنسو ٹپک رہے تھے۔ حضرت سعد نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ روتے ہیں؟ فرمایا کہ:’’هٰذِهٖ رَحْمَةٌ جَعَلَهَا اللّٰهُ فِیْ قُلُوْبِ عِبَادِهٖ‘‘۱؎ یہ رقت اور رحمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کےدل کے اندر رکھی ہے۔اور اس سے وہی محروم رہتا ہے جو اللہ کے خیر سے محروم ہوجائے۔ آپ پر تکلیف اور مصیبت آئی ہوئی ہے،اس کااظہار آپ سے ہورہا ہے،اسی وجہ سے صحابی نے اعتراض بھی کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں،آپ نے فرمایا کہ یہ صبر کے خلاف نہیں ہے،یہ ممنوع نہیں ہے ،یہ تو رحمت اور محبت کی وجہ سے ہوتا ہے،معلوم ہواکہ تکلیف کا اظہار ممنوع نہیں ہے،لیکن تکلیف میں جزع و فزع ،شکوہ شکایات ممنوع ہے۔ بہر حال مصیبت میں صبر کا مطلب ہے اللہ کے حکم پر جمے رہنا۔ مصیبت آئی نماز چھوڑ دی، مصیبت آئی ،اُس کو دور کرنے کے لئے جائز و ناجائز کی فکر کیے بغیر کام بنالیاتو یہ صبر نہیں ہے، ایسے وقت میں جمنے کا اور اپنے آپ کو غلط راستہ پر ڈالنے سے بچانے کا نام صبر ہے۔ ------------------------------ ۱؎:صحیح البخاری: الجنائز؍ باب قول النبیﷺ:یعذب المیت ببکاء اہلہ۔