موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
حقیقی ہوتے ہیں ،بظاہران سے کرامت کا ظہور ہوتا ہے لیکن پسِ پردہ اللہ کی قدرت ہی کار فرما ہوتی ہے ، یہ لوگ اپنے ذمے کئے گئے کاموں کو کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ ہی کے محتاج ہوتے ہیں، اس لیے ان لوگوں سے مطلوبہ کام کرنے کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔ایک مثال سے وضاحت: ایک بزرگ نے اس کی بڑی اچھی مثال دی کہ ایک ٹیوب لائٹ ہے۔ یہ ٹیوب روشنی دینے میں بالکل محتاج محض ہے، اس میں بذاتِ خود کچھ نہیں ہے۔ اصل بجلی ہے جو سوئچ آن (Switch on) کرنے پر فراہم ہوتی ہے۔ جیسے ہی سوئچ آن (Switch on) ہوتا ہے ٹیوب روشن ہوجاتی ہے۔ اگر سوئچ آن کیے بغیر اس ٹیوب سے کوئی کہے کہ تم مسجد میں لگی ہوئی ہو اور مسجد اللہ تعالیٰ کا گھر ہے، لہذاتم روشن ہوجاؤتو یہ سوئچ آن کیے بغیر روشن ہو ہی نہیں سکتی۔ یہی کیفیت اُس مخلوق کی بھی ہے ،جس پر اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کو ظاہر کرتے ہیں، وہ کرامتوں کو ظاہر کرنے میں خود مختار نہیں ہوتے ،بلکہ اللہ پاک کے محتاج ہی ہوتے ہیں،لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے دوسرے عام لوگوں کی طرح بے حیثیت ہیں۔ بلکہ ان کی بھی ایک حیثیت ہوتی ہے۔ اس لئے غیر اللہ سے استعانت کی چاہے وہ وہ باحیات ہوں یا بے حیات ،کسی بھی حال میں اجازت نہیں ہے۔ نہ ان کے سامنےوہ آدابِ تعظیم بجالاسکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں اور نہ اُن سے مدد مانگی جاسکتی ہے ،کیونکہ مدد مانگنا عبادت کا ایک حصہ ہے،البتہ ان کا ادب و احترام کریں گے،کیونکہ اللہ پاک سے تعلق کی وجہ سے اللہ کے ہاں ان کا ایک مقام اور ایک حیثیت ہے۔ اس لیے حق تعالیٰ شانہ، نے دونوں باتیں یہاں سکھادیں: ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ کہ ’’ہم آپ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور آپ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔‘‘