موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
’’اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ‘‘کی تشریح ’’تیری ہی ہم بندگی کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں‘‘ماقبل سے ربط: ابتدائی آیات میں یہ بات آپ کو بتائی گئی کہ اللہ تعالیٰ ہی سارے عالَموں اور ساری چیزوں کو وجود بخشتا ہے، ان کو باقی رکھتا ہے، ان سب کا رب ہے،اور ہم سب اس کے محتاج ہیں،جب اللہ ہمارا رب ہےاور ہم سب اس کے محتاج ہیں تو ہم کو اسی کےسامنے جھکنا چاہئے،اسی سے مدد مانگنی چاہئے ،عبادت اور اطاعت اسی کی کرنی چاہئے،کیونکہ ربوبیت اطاعت اور عبادت کا تقاضہ کرتی ہے،اس لیے اگلی آیت میں ارشاد فرمایا: ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ﴾۔عبادت اور استعانت باری تعالیٰ کا حق ہے: عبادت اور استعانت اللہ تبارک وتعالیٰ کے حقوقِ خاصہ میں سے ہیں۔ یعنی یہ حق اللہ تعالیٰ کا ذاتی ہے، کسی اور کو نہیں دیا گیا،اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہوسکتا۔ خالق اللہ ہیں، مالک اللہ ہیں، رب اللہ ہیں، حاکم اللہ ہیں لہٰذا عبادت بھی اللہ تعالیٰ ہی کی ہوگی اور اللہ ہی سے مدد مانگی جائے گی، کسی اور سے نہیں۔ سورۂ فاتحہ کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین باتیں بیان فرما ئی ہیں۔ ایک تو اس میں دعا کی ترغیب ہے۔(۲)عبادت اور استعانت کا حکم ہے۔(۳)اس عبادت اور استعانت میں حق تعالیٰ نے اپنا استحقاق ثابت کیا ہے۔ یہاں اللہ پاک عبادت اور استعانت کو اس انداز سے بھی ذکر کر سکتے تھےکہ اللہ کے علاوہ کسی اورکو شریک مت کرنا، صرف اللہ کی عبادت کرنا، غیراللہ کی پوجا مت کرنا، صرف اللہ ہی سے مدد مانگنا،لیکن حق تعالیٰ نے یہاں ایسا طرزاختیار کیا کہ عقل کے