موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
جب اُس نے یہ فیصلہ سنا تو فوراً بھاگا ہوا استاذ کے پاس آیا اور کہا کہ بادشاہ آپ کو اس شہر سے نکالنا چاہتا ہے۔ انہوں نے حیرت سے کہا کہ بادشاہ مجھے نکالنا چاہتا ہے، وہ مجھے نکالے گا یا میں اُسے نکالوں گا؟ اپنے شاگرد سے کہا کہ ہمارا ہتھیارلاؤ، ایک لوٹے میں پانی لاؤ اور مصلیّٰ بچھاؤ۔ وہ عقیدت مند فوراً بادشاہ کے پاس گیا اور کہا کہ بادشاہ سلامت جلدی سے استاذ کے پاس پہنچ کر معافی مانگئے ورنہ آپ کا بوریابستر یہاں سے لپیٹ دیا جائے گا۔ان بزرگ کا اللہ پاک سے ایسا تعلق تھا کہ ادھر ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے اور ادھر بادشاہ کا تخلیہ ہوجاتا۔بس بندہ کے اللہ سے تعلق کی بات ہوتی ہے۔جس کا جیسا تعلق ہوتا ہے اس کے کام بھی اتنے ہی آسان ہوجاتے ہیں اور اللہ کے ہاں وہ اتنا ہی مقبول ہوتا ہے،اور ہر بندہ اللہ سے تعلق بنانے میں آزاد ہے ،جتنا چاہے اپنا تعلق بڑھا سکتا ہے،دنیا کے بادشاہوں سے آپ ملنا چاہیں تو ملنا مشکل ہے،اگر ہم ان سے ملاقات کر بھی لیں تو اپنی ضروریات پیش نہیں کرسکتے،اگر پیش بھی کردیں تو وہ ضروریات مکمل نہیں ہوتیں،یہاں خالقِ کائنات، عرشِ اعظم کا ربّ، آسمان و زمین کا خالق و مالک، ہم سب کا پالنے والا کہتا ہے کہ ہمارے سامنے آؤ! اور آدابِ شاہی بجالاؤ ،ہمارے سامنے اپنی ضرورتیں بیان کرو،ہم پورا کریں گے،تمہارا کام بن جائیگا،لیکن ہم اس کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے۔قبولیتِ دعا کی صورتیں: بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے اتنی دعا مانگی لیکن ہماری دعا قبول نہیں ہوئی،ہمارا کام نہیں بنا،ہماری ضرورتیں پوری نہیں ہوئیں،تو یاد رکھنا چاہئےکہ قبولیتِ دعا کا مطلب صرف ضرورت کا پورا ہونا نہیں ہے،بلکہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قبولیت دعاکی چند صورتیں ہیں۔ (۱)کبھی تو اللہ پاک اس کی ضرورت کی تکمیل کردیتے ہیں۔