موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
امتی کے بس میں نہیں ہے کہ وہ براہِ راست حق تعالیٰ کاکلام پڑھ لے اور سمجھ لے۔اگر محض کتاب اور حدیث ہی کافی ہوتی تو انبیاء کو کیوں بھیجا گیا؟معلوم ہوا کہ محض کتاب اللہ کافی نہیں ہے،بلکہ کتاب اللہ کے ساتھ رجال اللہ بھی ضروری ہیں۔ جیسے آدمی میڈیسن (Medicines)کے قواعد یاد کرکے اور دواؤں کے نام یاد کرکے کلینک (Clinic)نہیں کھول سکتا،کسی کا علاج و معالجہ نہیں کرسکتا،تو قرآن و حدیث کے پڑھ لینے سے کیسے وہ مفتی بن جائے گا؟کیسے وہ لوگوں کو مسائل بتاسکے گا؟ کیسے وہ عالم دین بن جائیگا؟ جب تک آدمی کسی کی تربیت حاصل نہیں کرے گا،کسی کی زیر نگرانی نہیں رہے گا،اس وقت تک وہ راہِ حق پر نہیں چل سکتا، لوگوں کو راہِ راست پر نہیں لاسکتا،اس لیے فرمایا کہ اس راستے میں جو نشیب و فراز آئیں گے،جو مشکلات آئیں گی، وہ تم کو اُن لوگوں کے راستے سے ملیں گے جو لوگ تربیت یافتہ ہیں،اور اُن لوگوں کی تربیت بھی ان کے اساتذہ اور ان کے مشائخ نے کی ہے،اور یہ سلسلہ براہِ راست حضورﷺ تک پہونچتا ہے۔اللہ تعالی کی جانب سے حضورﷺ کی براہ راست تربیت: خود نبیﷺ کی تربیت اللہ تعالیٰ نے براہِ راست فرمائی ہے،آپﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’إِنَّ اللّٰهَ أَدَّبَنِیْ وَأَحْسَنَ أَدَبِیْ‘‘۱؎ ’’ مجھ کو میرے رب نے ادب سکھایا اور بہت بہترین ادب سکھایا۔‘‘ ------------------------------ ۱؎:ادب الاملاء والاستملاء:۱؍۱۔ أدبنی ربی فأحسن تأديبی ….وبالجملة فهو كما قال ابن تيمية: لا يعرف له إسناد ثابت، لكن قال فی الدرر: صححهٗ أبو الفضل بن ناصر.وقال فی اللآلئ: معناه صحيح, لكن لم يأت من طريق صحيح الخ:کشف الخفاء ومزیل الالباس:۱؍۸۱۔