موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
کو پہلے ذکر نہ کرتے تو یہ مفہوم پیدا نہ ہوتا ،اس وقت مطلب یہ نکلتا کہ ہم آپ کی عبادت کرتے ہیں،لیکن دوسرے کی عبادت کرتےہیں یا نہیں، اس سے متعلق کوئی اشارہ اس میں نہیں ہوتا ،لیکن یہاں ایاک کو پہلے ذکر کیا گیا ہے، جس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ اے اللہ! ہم آپ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور آپ ہی سے مدد چاہتے ہیں،اور آپ کے غیر کی نہ عبادت کرتے ہیں اور نہ اس سے مدد چاہتے ہیں۔دوسرا نکتہ: اللہ پاک نے لفظ’’نعبد‘‘اور لفظ’’نستعین‘‘صیغۂ مضارع بیان کیا ہے،اور عربی میں اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ حال اور مستقبل دونوں کے لیے ہی بولا جاتا ہے۔ حال کے اعتبار سے ترجمہ یوں ہوگا : ہم عبادت کرتے ہیں اور مدد چاہتےہیں،اور مستقبل کے اعتبار سے ترجمہ یوں ہوگا:ہم عبادت کریں گےاور مدد چاہیں گے،یہاں اللہ پاک نے مضارع کا صیغہ استعمال کرکے بتایا کہ فی الحال تمہیں میری ہی عبادت کرنی ہے اور آئندہ بھی،ایسے ہی فی الحال تمہیں مجھ ہی سے مدد چاہنی ہے اور آئندہ بھی، اس لیے یہاں مطلب یہ ہوگا کہ اے اللہ ہم اب آپ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے،اور ہم اب آپ ہی سے مدد چاہتے ہیں اور آئندہ بھی چاہتے رہیں گے۔تیسرا نکتہ : تیسرا نکتہ یہ ہے کہ یہاں اللہ پاک نےجمع کا صیغہ استعمال فرمایا ہے،اس کا ترجمہ یہ ہے:اے اللہ! ہم آپ کی عبادت کرتے ہیں،متکلم کا صیغہ استعمال نہیں کیا گیا،اس کا ترجمہ یہ ہے:’’یا اللہ!میں آپ کی عبادت کرتا ہوں۔‘‘ ظاہر ہے کہ متکلم کے صیغہ میں تکبر اور بڑائی جھلکتی ہے،اور اللہ پاک کو بندوں کی بڑائی پسند نہیں ہے،اس لئے جمع کا صیغہ لائے تا کہ تکبر اور بڑا ئی کا اظہار نہ ہو۔