موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
اس آیت سے ثابت ہوا کہ استنباط اور اپنی رائے سے کوئی بات کہنا کامل العلم کے واسطے درست ہے اور اسی طرح دوسری جگہ پر فرمایا: ’’كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوْا آيَاتِهٖ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ‘‘۱؎ ’’یعنی ہم نے اس کتاب کو جو بابرکت ہے اس لئے اتارا ہے تاکہ اہل عقل اس کے اندر غور کرکے نصیحت حاصل کریں ‘‘۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے غور کرنے کی دعوت دی ہے اب جب غور کرے گا تو لا محالہ اپنی رائے سے معنی متعین کرے گا۔ حضرت ابن عباسؓ سے منقول ہے آپ نے فرمایا : ’’اَلْقُرْآنُ ذَلُوْلٌ ذُوْوُجُوْہٍ فَاحْمِلُوْہُ عَلٰی اَحْسَنِ وُجُوھِہٖ‘‘۲؎ ’’یعنی قرآن پاک کے اندر آیات متعدد صورتوں کا احتمال رکھتی ہیں تم ان میں سے جو سب سے زیادہ ا حسن صورت ہو آیت کو اس پر محمول کرلوتو دیکھو حضرت ابن عباس نے احسن صورت پر محمول کرنے کا حکم دیا ہے اورا حسن صورت کا ادراک کرنا اور یہ معلوم کرنا کہ کون سی صورت احسن ہے اپنی رائے ہی سے ہوسکتا ہے لہذا فاحملوہ علی الاحسن کی اجازت دینا گویارائےکی اجازت دینا ہے۔مانعین ِ تفسیر بالرائے کے مستدلات کا جواب رہی وہ دوحدیثیں جن سے عدم جواز کے بارے میں استدلال کیا گیا ہے تو ان میں سے پہلی حدیث کا جواب یہ ہے کہ’’فَقَدْ أخْطَأَ ‘‘کے معنی ہیں ’’فَقَدْأ خْطَأَ الطَّرِیْقَ‘‘یعنی اس نے تفسیر کے طریقہ اور اس کی ترتیب کے خلاف کیا، کیونکہ ترتیب تو یہ ہونی چاہئے کہ اگر الفاظ کی تفسیر کرنا ہو تو اہل لغت کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور ناسخ و منسوخ معلوم کرنا ہو تو اخبار کی طرف رجوع کرنا چاہئے، اور اگر معنی مرادی معلوم کرنا ہو تو شارع کی طرف رجوع کرنا چاہئے لیکن اس نے غلطی کی اور بغیر اس ترتیب کا لحاظ کئے ہوئے اپنی رائے سے بات کہدی ،لیکن جو شخص تر تیب کالحاظ کرنے کے بعد اگر کوئی چیز نہ ملے اور اپنی رائے سے بیان کردے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور ہم نے یہی صورت مان رکھی ہے لہذا اس حدیث سے ہمارے خلاف استدلال نہیں کیا جاسکتا۔ ------------------------------ ۱؎:ص:۲۹۔ ۲؎:سنن دارِ قطنی:النوادر،رقم:۴۳۲۱۔