موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
اللہ ہی کو حقیقی معبود سمجھےاور اسی کی عبادت کرے۔اور اس طریقہ پر عبادت کرے کہ اللہ پاک کے اپنے سامنےہونے کا استحضار کرے،کیونکہ بندہ جب ’’ایاک‘‘کہتا ہے تو اس میں اللہ پاک کو مخاطب کرتا ہے کہ یا اللہ! میں آپ ہی کی عبادت کررہاہوں،اور خطاب کا صیغہ اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب پکارنے والاجس کو پکارتا ہے اس کو اپنے سامنے سمجھے،گویا اس میں اللہ پاک نے لطیف انداز میں فرمایا کہ اس کے پڑھتے وقت میرا استحضار رکھو اور عبادت میں صرف میرا ہی استحضار رکھو،کسی اور کا نہیں اور مجھے اپنے سامنے سمجھو،حضورﷺنے فرمایا: ’’إِنَّ اللّٰهَ قِبَلَ وَجْهِ أَحَدِكُمْ إِذَا صَلّٰى،فَلَا يَبْزُقْ بَيْنَ يَدَيْهِ‘‘۱؎ بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ تمہارےسامنے ہوتے ہیں اس لئے جب کوئی آدمی نمازادا کرتا ہے تووہ اپنے سامنے نہ تھوکے ۔ حضرت ابو ھریرہ فرماتے ہیں:’’إِذَا صَلَّيْتَ فَإِنَّكَ تُنَاجِيْ رَبَّكَ وَرَبُّكَ أَمَامَكَ، فَلَا تَبْزُقَنَّ أَمَامَكَ، وَلَا عَنْ يَمِينِكَ‘‘۲؎ جب تم میں نماز پڑھتے ہو تو تم اپنے رب سے سرگوشی کرتے ہواور تمہارا رب تمہارے سامنے ہوتا ہےلہٰذا تم تمہارے سامنے تھوکواور نہ دائیں جانب تھوکو۔نمازی کے سامنے سےگزرنے پر وعید: کئی احادیث اس سلسلہ میں آئی ہیں،اور نماز پڑھنے والے کے سامنے سے گزرنے پر جو وعید ہے وہ اسی لیے ہے۔ اللہ اور بندے کے درمیان میں آجانا انتہائی غضب کی بات ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ اگر کسی کو یہ معلوم ہو کہ نماز پڑھنے والے کے سامنے سے ------------------------------ ۱؎:سنن ابی داود: الصلاة؍ باب فی کراہیۃالبزاق فی المسجد۔۲؎:تعظیم قدر الصلاۃ لمحمد بن نصر المروزی:التحذیرمن السہو والالتفات فیھا؍۹۰۔