موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
کے لئے اس کے اسباب کو سجھانا کہ زمین سے غلہ اس طرح نکالا جاتا ہے،اس چیز سے یہ نفع اٹھایا جاسکتا ہے،یہ چیز اس میں کار آمد ہوسکتی ہے، یہ بھی استعانت ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی عقل ا ور دماغ کوایسا بنایا اور اس کو ایسے تجربات سے گذارا کہ اُس کو معلوم ہوگیا کہ اس موجودہ دنیا میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل اور اُن کے طے شدہ خزانوں کو لینے کے لیے کیا کیا راستے اختیار کیے جاسکتے ہیں،اب برق کے ذریعے،بھاپ کے ذریعے، اسٹیل کے ذریعے،مختلف قسم کی دھاتوں کے ذریعے انسان کیسے کیسے کارنامے انجام دے رہا ہے، یہ سب استعانت میں داخل ہیں۔ اس لیے کہ اس میں آدمی کا جتنا کام بنتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہی سے بنتا ہے۔ وہ کام جس راستے سے بنتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا سمجھایا ہوا اور سجھایا ہوا راستہ ہوتاہے۔﴿ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ﴾کا خلاصہ: ﴿اهْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ﴾میں عقائد،عبادات،معاملات،معاشرت، اخلاقیات، سیاست وغیرہ ان تمام مسائل میں راہِ حق کی طلب اور رہنمائی کی طرف اشارہ موجود ہے، قرآن پاک کا ایک بڑا حصہ ’’اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ‘‘ کے ذیل میں آتا ہے۔﴿أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ﴾ کاخلاصہ: قرآن پاک کی وہ آیات یا وہ سورتیں جن میں انبیاء کے قصص موجود ہیں،جن میں اللہ پاک نے انبیاء اور اپنے خاص بندوں پر انعامات کا ذکر فرمایا ہے،جیسے حضرت یوسف،حضرت داؤد،حضرت سلیمان اور حضرت موسی وغیرہ وغیرہ ان سب کی طرف’’صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ‘‘میں اشارہ ہے۔گویا نبوت، ولایت،شریعت اورعقائد کے مباحث کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ’’منعم علیهم‘‘ انہی صفات کے ساتھ متصف حضرات تھے، دولت، عزت، صحت، شان و شوکت یہ چیزیں