موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
﴿وَلَوْلَا أَنْ يَّكُوْنَ النَّاسُ أُمَّةً وَّاحِدَةً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ يَّكْفُرُ بِالرَّحْمٰنِ لِبُيوْتِهِمْ سُقُفًا مِّن فِضَّةٍ وَّمَعَارِجَ عَلَيْهَا يَظْهَرُوْنَ﴾۱؎ ’’ اور اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ سب لوگ ایک ہی جماعت ہوجائیں گے تو جو لوگ رحمٰن کا انکار کرتے ہیں ہم ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی بنا دیتے اور سیڑھیاں (بھی) جن پر وہ چڑھتےہیں‘‘۔ اس آیت میں بھی دنیا میں مدد اور دنیوی نعمتوں کا تذکرہ ہے اور یہاں بھی رحمٰن ہی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔دنیا کافر کے لیے جنت ہے: یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحمٰن کی تجلی کافروں پر بھی پڑی ہوئی ہے اور اُن لوگوں کو بھی دنیوی نعمتیں اسی صفتِ رحمٰن کے نتیجہ میں ملی ہیں۔ حق تعالیٰ کا یہ ضابطہ ہے کہ ان لوگوں کو آخرت میں کچھ دینا نہیں ہے کیونکہ وہ آخرت کی تیاری نہیں کررہے ہیں ،آخرت کو مانتے ہی نہیں ہیں، اس لئے دنیا میں ان کے لئے ڈھیل زیادہ ہے، اسی وجہ سے قرآنِ پاک میں حضور پاک ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا: ﴿ ذَرْهُمْ يَأْكُلُوْا وَيَتَمَتَّعُوْا وَيُلْهِهِمُ الْأَمَلُ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ ﴾۲؎ (اے محمد) ان کو اُن کے حال پر رہنے دو کہ کھالیں اور فائدے اُٹھالیں اور (طول) امل ان کو دنیا میں مشغول کئے رہے عنقریب ان کو (اس کا انجام) معلوم ہو جائے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ تم بھی اسی ترتیب پر چلو بلکہ جو ہمارے دین کو نہیں مانتا تو دنیا میں اُس کے لیے ڈھیل ہے۔لیکن آخرت میں اس کی پکڑ سخت ہوگی، یہ بہت بڑا بنیادی فرق ہے جو مسلمانوں کو ذہن میں رکھنا ہے۔ ہم لوگ یہ نہیں چاہتے، بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں: ------------------------------ ۱؎:الزخرف:۳۳۔ ۲؎:الحجر:۳۔