موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
طریقہ پر بس نہیں کیا، بلکہ ان تمام ذرائع سے بیک وقت کام لے کر اس وقت تک کوئی آیت اپنے صحیفوں میں درج نہیں کی جب تک اس کے متواتر ہونے کی تحریری اور زبانی شہادتیں نہیں مل گئیں، اس کے علاوہ آنحضرتﷺنے قرآن کریم کی جو آیات اپنی نگرانی میں لکھوائی تھیں وہ مختلف صحابہ کے پاس محفوظ تھیں، حضرت زید نے انہیں یک جا فرمایا تاکہ نیا نسخہ ان سے ہی نقل کیا جائے، چنانچہ یہ اعلانِ عام کردیا گیا کہ جس شخص کے پاس قرآن کریم کی جتنی آیا ت لکھی ہوئی موجود ہوں وہ حضرت زید کے پاس لے آئے، اور جب کوئی شخص اُن کے پاس قرآن کریم کی کوئی لکھی ہوئی آیت لے کر آتا تو وہ مندرجہ ذیل چار طریقوں سے اس کی تصدیق کرتے تھے۔جمع قرآن کے وقت آیات قرآنیہ کی تصدیق کے شرائط: (۱)سب سے پہلے اپنی یادداشت سے اس کی توثیق کرتے۔ (۲)پھر حضرت عمر بھی حافظِ قرآن تھے، اور روایات سے ثابت ہے کہ حضرت ابوبکر نے اُن کو بھی اس کام میں حضرت زیدکے ساتھ لگادیا تھا اور جب کوئی شخص کوئی آیت لیکر آتا تھا تو حضرت زیداور حضرت عمر دونوں مشترک طور پر اسے وصول کرتے تھے۔۱؎ (۳)کوئی لکھی ہوئی آیت اُس وقت تک قبول نہیں کی جاتی تھی جب تک دو قابلِ اعتبار گواہوں نے اس بات کی گواہی نہ دیدی ہو کہ یہ آیت آنحضرتﷺ کے سامنے لکھی گئی تھی۔۲؎ (۴)اس کے بعد ان لکھی ہوئی آیتوں کا اُن مجموعوں کے ساتھ مقابلہ کیا جاتا تھا جو مختلف صحابہ نے تیار کررکھے تھے ۔۳؎ایک اعتراض کا دفعیہ: حضرت ابوبکر کے زمانہ میں جمع قرآن کا یہ طریق کار ذہن میں رہے تو حضرت زید بن ثابت کے اس ارشاد کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ سورۂ برأۃ کی آخری آیات ’’لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ ‘‘ مجھے صرف حضرت ابو خزیمہ کے پاس ملیں، ان کے سوا کسی اور کے پاس نہیں ملیں‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ یہ آیتیں سوائے حضرت ابو خزیمہ کے کسی اور کو یاد نہیں تھیں، یا کسی اور کے پاس لکھی ہوئی نہ تھیں، اور اُن کے سوا کسی کو ان کا جزء قرآن ہونا معلوم نہ تھا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آنحضرتﷺ کی لکھوائی ہوئی ------------------------------ ۱؎:فتح الباری : ۹ ؍۱۱، بحوالۂ ابن ابی داؤد ۔ ۲؎:اتقان: ۱ ؍ ۶۰۔ ۳؎:البرہان فی علوم القرآن للزرکشی: ۱ ؍ ۲۳۸۔