موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
’’اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یَبْعَثُ لِهٰذِہِ الْاُمَّةِ عَلٰی رَأْسِ کُلِّ مِئَةِ سَنَةٍ مَنْ یُّجَدِّدُ لَهَا دِیْنَهَا‘‘۱؎ ’’اللہ تبارک وتعالیٰ ہر سو سال کے سرے پر ایسے اللہ والوں کو بھیجتا ہے جو دین کی تجدید کرتے ہیں۔‘‘ اور لوگوں کےلئے قرآن و حدیث کے موافق تربیت پانے کی شکلیں سامنے لاتے ہیں اور اُن کی تربیت اُسی حساب سے کرتے ہیں۔آپﷺ کی نبوت کے اعلان سے اب تک چودہ سو سال سے زائد ہوچکے ہیں، ہر سو سال میں بڑے بڑے انقلابات ہوتے رہے ہیں۔جب آپ مسلمانوں کی تاریخ پڑھتے ہیں تو آپ کو دین سے غفلت، جہالت، اور دوری کا ایک سیلِ رواں نظر آتا ہے،پھر اللہ تعالیٰ کچھ بندوں کو منتخب کرکے اُن کے ذریعے کچھ ایسی محنتیں وجود میں لاتے ہیں جن کے ذریعے ہزاروں لاکھوں بندے راہ یاب ہوجاتے ہیں جیسے اللہ پاک نے اس زمانے میں بھی مختلف قسم کی محنتیں بالخصوص ’’دعوت و تبلیغ‘‘ کی محنت جاری فرمادی، ہزاروں لاکھوں بندگانِ خدا کو اس راستے سے فائدہ پہنچایاجس کا لوگوں کو گمان تک نہ تھا۔اسی وجہ سے بزرگوں نے فرمایا کہ الیاس نے ’’یاس‘‘ کو ’’آس‘‘ سے بدل دیا۔ ہم لوگ یاس میں تھے اور لوگوں کا سدھرنا بڑا مشکل معلوم ہورہا تھا، لیکن جب یہ محنت چل گئی تو اب آس لگ گئی کہ سدھر جائیں گے،خلاصہ یہ کہ دین پر چلنے اور جمنے کی جتنی شکلیں وجود میں آتی رہتی ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی صفت ’’رحیمیت‘‘ کی وجہ سے ہوتی رہتی ہیں۔صفتِ رحمن اور رحیم کے بارے میں ایک تنبیہ: الرحمن الرحیم کا یہ مفہوم نہیں ہے جیسے کچھ لوگ کہتے ہیں’’کھانا وانا‘‘،’’پانی وانی‘‘، ’’شربت وربت‘‘ بلکہ الرحمن اپنے ساتھ ایک مستقل معنی رکھتا ہے اور الرحیم اپنے ساتھ مستقل معنی رکھتاہے۔ ------------------------------ ۱؎:سنن ابی داؤد: الملاحم ؍باب ما یذکر فی قرن المائۃ۔