موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
مطلب متکلمین کے نزدیک یہ ہے کہ جس پر پہلے عدم طاری نہ ہو یعنی جو ہمیشہ سے ہو اور ہمیشہ تک رہے اس کی ضد حادث ہے ،یعنی جس کا وجود پہلے معدوم ہو اسے پھر وجود ملا ہو۔ معتزلہ یہ کہتے ہیں کہ کلام پاک حادث ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ قرآن نام ہے اصوات وحروف کے مجموعہ کا اور یہ دونوں چیزیں حادث ہیں کیونکہ ان میں ترکیب ہوتی ہے یعنی ایک آواز ختم ہوتی ہے تو دوسری پیدا ہوتی ہے اور جس چیز میں ترکیب ہو وہ حادث ہوا کرتی ہے لہذا حروف و اصوات حادث ہیں اور جب اجزاء حادث ہیں تو مجموعہ بھی حادث ہوگا کیونکہ قاعدہ ہے کہ’’ اَلْمُرَکَّبُ مِنَ الْحَادِثِ حَادِثٌ‘‘ پس کلام الٰہی حادث ہے۔کلام اللہ کے بارے میں اہل السنۃ والجماعۃ کا نظریہ: اہل السنۃ والجماعۃ کا کہنا یہ ہے کہ قرآن قدیم ہے مگر یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اہل السنۃ والجماعۃ کلام کی دو قسمیں کرتے ہیں: کلام لفظی اور کلام نفسی، کلام نفسی کو قدیم مانتے ہیں اور کلام لفظی کو وہ بھی حادث مانتے ہیں، یعنی اصل شئی کو تو قدیم اور اس کے تعلقات کو حادث مانتے ہیں ۔کلامِ نفسی کے وجود کے دلائل: پھر اختلاف کلام نفسی کا وجود کے بارے میں ہے معتزلہ اس کا انکار کرتے ہیں اہل السنۃ اس کا اثبات کرتے ہیں اور اہل السنۃ کے پاس کلام نفسی کے وجود پر پہلی دلیل تو بداہت ہے کیونکہ بالبداہت ہم اس بات کو سمجھتے ہیں کہ جب ہم کو کوئی کلام کرنا ہوتا ہے تو پہلے ہم اس کلام کا اپنے دل میں ایک اجمالی تصور قائم کرتے ہیں اور پھر تلفظ کے ذریعہ اس کا تفصیلی وجود ہوتا ہے اور دل میں جو اجمالی تصور ہوتا ہے اور جو دل میں بات ہوتی ہے اسی کا نام حقیقۃ کلام ہے چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے : اِنَّ الْکَلَامَ لَفِی الْفُؤَادِ وَاِنَّمَا جُعِلَ الِّلسَانُ عَلَیْہِ دَلیْلًا یعنی اصل بات تو دل میں ہوتی ہے مگر زبان کو اس دل کی بات پر رہنما بنایا گیا ہے۔ اسی طرح قرآن پاک اور احادیثِ مبارکہ سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کلام کی دو قسمیں ہیں ان میں سے ایک وہ ہے جو دل کے اندر ہوتا ہے،چناچہ ایک جگہ ارشاد ربانی ہے : ’’يُخْفُوْنَ فِيْ أَنْفُسِهِمْ مَّا لَا يُبْدُوْنَ لَكَ‘‘ ۱؎ یہ لوگ اپنے دلوں میں وہ بات چھپاتے ہیں جو آپ کے سامنے ظاہر نہیں کرتے ۔ ------------------------------ ۱؎ : آلِ عمران:۱۵۴۔