موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
دعا اللہ پاک قبول نہیں فرماتے، اس کی مشق کی ضرورت ہوتی ہے،اس کی طلب دل میں پیدا کرنی چاہئے،کوشش کرنی چاہئے، آدمی اپنے اعتبار سے کوشش تو کرے،اگر درمیان میں موت ہوجائے تو اللہ کی ذات سے امید ہے کہ اللہ پاک معاف فرمادیں گے،کیونکہ نصوص میں اس طرح کی نظیریں ملتی ہیں،جیسے حفظ کرنے والے کے بارے میں آتا ہے کہ حفظ قرآن کی تکمیل سے قبل وہ مرجائے تو اللہ تعالیٰ اُس کو حافظوں میں شمار فرماتے ہیں، بعض روایتوں میں یہ بھی مروی ہے کہ ایک فرشتہ اس کی قبر میں متعین کیا جاتا ہے جو اُس کے حفظ کو مکمل کروادیتا ہے۔۱؎ ایسے ہی اگر کوئی آدمی حج کے لیے گیا اور راستے میں اُس کا انتقال ہوگیا تو اللہ تعالیٰ اُس کو حاجیوں میں شمارکرتے ہیں، بلکہ دوسروں کے حج کے مقابلے میں اس کا ثواب زیادہ ہوگا،اور قیامت تک جتنے بھی حج ہوں گے سب کا ثواب اس کے نامۂ اعمال میں لکھاجائے گا۔ ’’مَنْ خَرَجَ حَاجًّا فَمَاتَ كَتَبَ اللّٰهُ لَهٗ أَجْرَ الْحَاجِّ إِلٰى يَوْمِ الْقِيَامَةِ‘‘۲؎طلب کی حقیقت: یہ اجر طالب کے لئے ہے ،تمنا کرنے والے کے لئے نہیں ،طلب الگ چیز ہے اور تمنا الگ چیز ہے، طلب اس کو کہتے ہیں کہ جب تک آدمی کو چیز حاصل نہیں ہوتی ،اس وقت تک وہ بے چین اور بے قراررہے،اور اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہے،اور تمنا میں آدمی کوشش نہیں کرتا بلکہ اس میں صرف خیال اور ارادہ ہی کرتا ہے۔ امام غزالی کو جب اللہ تعالیٰ کی طلب ہوئی تو جنگل جنگل پھرتےرہے،حتی کہ بیمار ہوگئے۔ حکیموں نے کہا کہ اگر ان کو اللہ تعالیٰ کا وصال یعنی اللہ تعالیٰ کی معرفت نہ ملی تو یہ مرجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے عشق کی سوزش اور گرمی سے اُن کی طبیعت خراب ------------------------------ ۱؎:شرح الصدور بشرح حال الموتی والقبور:۱؍۱۹۰۔ ۲؎:مسند ابی یعلی الموصلی :۶۳۵۷۔