موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
بہر ِکیف ان دلائل سے ثابت ہوگیا کہ کلام نفسی کا وجود ہے ،اس لئے اہل السنۃ والجماعۃ کہتے ہیں کہ کلام نفسی ذات باری کی صفت ہے اور اسی کے ساتھ قائم ہے اور وہ قدیم ہے ، کیونکہ حوادث کا قیام واجب کے ساتھ ممتنع ہے اور اس کلام ِنفسی کا تعلق کلام ِلفظی کے ساتھ ہے اور یہ تعلق حادث ہے اور اس تعلق کے حادث ہونے کی وجہ سے اصل شئی کا حادث ہونا لازم نہیں آتا،جیسے کہ اللہ پاک کی اور دوسری صفات قدیم ہیں،مگر ان کے تعلقات حادث ہیں،تو جب اہل السنۃ والجماعۃ کلامِ نفسی کو قدیم مانتے ہیں تو معتزلہ کی دلیل اہل السنۃ والجماعۃ پر قائم نہیں ہوگی،اس لئے کہ معتزلہ نے دلیل کلامِ لفظی کو مان کر قائم کی ہے جب کہ ہم بھی کلامِ لفظی کو حادث مانتے ہیں ۔تاریخِ نُزولِ قرآن: قرآن کریم جیسا کہ کلامِ الہی ہے، اس لئے ازل سے لوح محفوظ میں موجود ہے، قرآن کریم کا ارشادہے: ’’بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَّجِيْدٌ،فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ ‘‘(بلکہ یہ قرآن مجید ہے، لوح محفوظ میں)۔ پھر لوحِ محفوظ سے اس کا نزول دو مرتبہ ہوا ہے، ایک مرتبہ یہ پورے کا پورا آسمانِ دنیا کے بیت العزت میں نازل کردیا گیا تھا، بیت العزت (جسے البیت المعمور بھی کہتے ہیں )کعبۃ اللہ کے محاذات میں آسمان پر فرشتوں کی عبادت گاہ ہے، یہ نزول لیلۃ القدر میں ہوا تھا، پھر دوسری مرتبہ آنحضرتﷺ پر تھوڑا تھوڑا کرکے حسبِ ضرورت نازل کیا جاتا رہا، یہاں تک کہ تئیس(۲۳) سال میں اس کی تکمیل ہوئی۔ ۱؎قرآن کی لغوی واصطلاحی تعریف: لفظ قرآن لغت کے اعتبار سے مصدر ہے، قرء الکتاب (ف) قرأة وقرآنا: پڑھنا، بمعنی اسم مفعول یعنی وہ شئی جو پڑھی جائے۔(یہ کتاب چونکہ بکثرت پڑھی جاتی ہے اس لئے اس کو قرآن کہتے ہیں ) اصطلاحی تعریف: ’’القرآن المنزل علی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم المکتوب فی المصاحف المنقول عنہ نقلا متواتر ابلا شبھة‘‘ (قرآن وہ کتاب ہے جو رسول اللہ ﷺ پر نازل کی گئی ہے، جو مصاحف میں لکھی گئی ہے،جو بغیر شبہ کے حضور ﷺ سے منقول ہوکر نقل متواتر کے ساتھ ہم تک پہنچی ہے)۔ قرآن کے مزید نام: صحیح معنی میں قرآن کے کل پانچ نام ہیں (۱) القرآن (۲)الفرقان (۳)الذکر (۴) الکتاب (۵)التنزیل ۔(علوم القرآن) ------------------------------ ۱؎: (اتقان: ۱ ؍ ۴۱)۔