موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
بہرحال حق تعالیٰ شانہ کا یہ نظام ہے کہ یہاں دنیا میں ہم بیٹھنے کے لیے نہیں آئے ، بلکہ ہم کو کام کرنا ہے، یہاں ہم کو محنت کرنی ہے،وہاں جاکر بدلہ پانا ہے۔لفظ مالک سے متعلق ایک نکتہ: مالک اورحاکم دونوں کےمعنی تقریباً ایک جیسے ہیں۔ اگر یہاں پر’’حاکم‘‘ کا لفظ استعمال کریں تو وہ بات نہیں ہوتی۔اس لیے کہ ’’حاکم‘‘ جزوی تصرف کرتا ہے کلّی تصرف نہیں کرتا۔ اور مالک ہر اعتبار سے تصرف کرسکتا ہے۔ ہماری حکومت کرنے والے بھی حاکم ہیں،مگر وہ ہماری ذات میں کلّی تصرف کے مجاز نہیں ہیں۔اس لفظ کا ستعمال کرکے اللہ پاک نے بتا دیا کہ ہر طرح کا تصرف صرف میں ہی کرسکتا ہوں،یہ صرف میرے اختیار میں ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ حاکم خود قانون کا پابند ہوتا ہے،لیکن مالک کسی قانون کا پابند نہیں ہوتا،اس میں اشارہ کردیا کہ میرے پاس آؤ تو مالک سمجھ کر آؤ ،حاکم سمجھ کر نہیں،کل تم آؤ گے ،قانون کہے گا کہ اس کو اس کے گناہوں کی وجہ سےعذاب دینا چاہئے لیکن میں قانون کا پابند نہیں ہوں ،میں اپنی رحمت کے دروازے کھول دوں گا اور اس کو معاف کر دوں گا۔ دیکھئے یہ قرآن پاک کا اعجاز ہے۔ حق تعالیٰ شانہ نے اپنے ایک ایک جملے میں کیا کیا چھپا رکھا ہے؟ اگر اُن کی جگہ کوئی متبادل لفظ استعمال کیا جائے تو اس سے وہ مفہوم نہ نکلتا جو اس لفظ سے نکلتا ہے۔اسی وجہ سے عربی کتابوں میں قرآن پاک کی عبارت اور جملوں کے لئے لفظ کا استعمال نہیں کیا جاتا،بلکہ’’نظم‘‘ کااستعمال ہوتا ہے، کیونکہ نظم کہتے ہیں موتی کے پرونے کو۔ قرآن پاک کا ایک ایک کلمہ ایسا ہے جیسے دھاگے میں موتی کو پرویا گیا ہو۔اور لفظ کے معنی آتے ہیں پھینکنے کے،ظاہر ہے کہ اس لفظ کو استعمال کرنے میں