موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
﴿صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ﴾ (یا اللہ!ہمیں چلا)’’ان لوگوں کے راستےپر جن پر تو اپنا فضل وکرم کرتا رہا ‘‘ اب یہ لوگ کون ہیں جن پر اللہ پاک کا انعام ہوا تو قرآن مجید کی دوسری آیت اس کی تفسیر کرتی ہے: ﴿وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولٰئِكَ مَعَ الَّذِيْنَ أَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيِّيْنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِيْنَ وَحَسُنَ أُولٰئكَ رَفِيْقًا ﴾۱؎ ’’اور جو اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرے تویہ لوگ اُن لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء، صدیقین، شہداءاور صلحاء ۔اور یہ بہت اچھے رفیق ہیں۔‘‘منعم علیہم کے چار طبقے: منعم علیہم کے چار طبقے اس آیت میں بیان کئے گئے ہیں، انبیاء، صدیقین، شہداءاور صالحین۔ نبی کےساتھ اور تین صفات جمع ہوسکتی ہیں،لیکن جو نبی نہ ہو تو اس میں نبوت کے علاوہ یہ اوصاف جمع ہوسکتےہیں،نبوت تو صرف نبی ہی میں ہوگی کسی اور میں نہیں ہوگی۔بہر حال اس آیت میں اللہ پاک نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن پر میرا انعام ہوا ہے،ان کے راستے پر چلنے کی دعا مانگو۔ اب مطلب یہ ہوگا کہ اے اللہ! آپ مجھے انبیاء ،صدیقین ،شہداء اور صلحاء کے راستہ پر چلا دیجئے۔ نبی تو نبی ہوتا ہے،اس کی رفعت اور بلندی کا تصور نہیں کیا جاسکتا،اس کے بعد صدیق کا درجہ ہے ،یہ شہید سے بڑے مرتبے والا ہوتا ہے کیونکہ صدیق صرف جان کو قربان نہیں کرتا بلکہ وہ مال کو بھی قربان کردیتا ہے۔ ------------------------------ ۱؎:النساء :۶۹۔