موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
’’ (یعنی قیامت کے روز) جس دن ان کی زبانیں ہاتھ اور پاؤں (سب) ان کے کاموں کی گواہی دیں گے ‘‘ ﴿وَيَوْمَ يُحْشَرُ أَعْدَاءُ اللّٰهِ إِلَى النَّارِ فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ،حَتّٰى إِذَا مَا جَاءُوْهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَجُلُوْدُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ﴾ ۱؎ ’’اور جس دن خدا کے دشمن دوزخ کی طرف چلائے جائیں گے ان کی جماعتیں بنائی جائیں گی، یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو ان کے کان اور آنکھیں اور چمڑے (یعنی دوسرے اعضاء) ان کے خلاف ان کے اعمال کی شہادت دیں گے ‘‘سب سے پہلے بائیں ران گواہی دے گی: حضور ﷺ نے فرمایا: ’’سب سے پہلے انسان کے جسم کا جو حصہ گواہی دے گا وہ اُس کی بائیں ران ہوگی۔‘‘ بائیں ران سب سے پہلے کہنا شروع کرے گی کہ یااللہ! یہاں سے یہ کام سرزد ہوئے۔ پھر اُس کے بعد تمام اعضاء گواہی دے دیں گے اور جتنے کام اُس نے مرنے تک کیےہیں ان سب کی گواہی دیں گے۔۲؎ جو آنکھ نے دیکھاہے، کل سب کے سامنے اس کی گواہی دے گی ،آنکھ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ کیمرہ کا کام کرتی ہے اور فوٹو لے لیتی ہے۔ جس کسی کو بھی آپ نے دیکھا اُس کا فوٹو سامنے کردے گی۔ جسم میں یہ خصوصیت ہے کہ جسم جو کام کرتا ہے وہ شعاعوں کی صورت میں اُس حصے پر چھپ جاتا ہے، اب وہ اندر محفوظ ہوجاتا ہے۔ کل قیامت کے دن اللہ تبارک وتعالیٰ اُس کو سامنے لانے والے ہیں۔ ------------------------------ ۱؎:فصلت:۱۹ و ۲۰۔۲؎:صحیح مسلم: کتاب الزہد والرقاق۔