موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
لئے انکار کی کوئی گنجائش نہ رہے، کیوں اللہ پاک نے پہلے اپنا خالق ہونا ثابت کیا،اس کے بعد اپنا رب ہونا ثابت کیا،اور ان دونوں صفات کے بارے میں فرمایا کہ یہ صرف میری صفت رحمت کی وجہ سے ہے کسی کے دباؤ کی وجہ سے نہیں،پھر اس کے بعد کہا کہ جب میں ہی تمہارا خالق ہوں اور تم سب کا رب ہوں اور تم سب میرےمحتاج اور میرے رحم و کرم پر ہو تو بتاؤ کہ تم کس کی عبادت کروگے؟کس سے مدد چاہوگے؟ ظاہر ہے کہ بندہ کے لئے یہاں اللہ پاک ہی کی طرف جھکنے ،اللہ ہی کی عبادت کرنےاور اللہ ہی سے مدد چاہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔’’ایاک نعبد‘‘سے متعلق پانچ نکات: پہلا نکتہ: اس جملہ میں اللہ پاک نے نعبد اور نستعین سے پہلے ’’ایاک‘‘کا لفظ ذکر کیا جس سے معنیٰ میں حصراور تخصیص پیدا ہوتی ہے،،اب مطلب یہ ہوگا کہ’’آپ ہی کی عبادت کریں گے،اورآپ ہی سے مددمانگیں گے‘‘آپ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کسی اور سے مدد نہیں چاہیں گے، اس کو ایک مثال سے سمجھیں کہ کسی نے آپ کو دوائی لانے کے لئے کہا اور ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ آپ کو یہ دوا فلاں دکان پر مل جائے گی،لیکن اس نے کسی اور جگہ کی نفی نہیں کی،اب آپ فلاں دکان پر نہ جاسکے ،کسی اور دکان پر گئے،وہاں وہ آپ کو مل جائے تو مل سکتی ہے،کیونکہ اس نے دوسری دکانوں کی تو نفی نہیں کی ہے، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس نے دوائی لاتے وقت کہا کہ آپ کو یہ دوا پورے شکاگو میں صرف فلاں دکان ہی پر ملے گی،اس طرح کہنے سے اس میں تخصیص پیدا ہوگئی،وہ کسی اور دکان پر آپ کو نہیں ملے گی،یہاں پر بھی باری تعالیٰ نے یہی طرز اختیار کیا ہے،اور لفظِ’’ایاک‘‘کو پہلے استعمال کیا ہے،جس سے حصر اور تخصیص پیدا ہوگئی ہے،اگر ایاک