موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
(۲)سفیان ثوری اگرچہ آمین بالجہر کے راوی ہیں، لیکن خود ان کا اپنا مسلک شعبہ کی روایت کے مطابق آمین آہستہ کہنے کا ہے۔آمین بالسر اوفق بالقرآن ہے: (۳)شعبہ کی روایت قرآن کے زیادہ موافق ہے،اسلئے کہ ارشاد باری ہے : ’’اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃً‘‘۱؎اپنے رب سےگڑگڑاکر اور چپکے چپکے دعا کیا کرو۔ اور آمین بھی دعا ہے، جس کی دلیل یہ ہے کہ قرآ ن میں’’قَدْ اُجِیْبَتْ دَعْوَ تُکُمَا‘‘کہا گیا ہے ،۲؎تم دونوں (حضرت موسی اور حضرت ہارون )کی دعا قبول کرلی گئی ) حالانکہ حضرت ہارون نے صرف آمین کہی تھی ،معلوم ہوا کہ آمین بھی دعا ہے۔ (۴)حضرت ابو ہریرہ کی معروف حدیث ہے : ’’اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺقَالَ اِذَا قَالَ الْاِمَامُ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّالِّیْنَ فَقُوْلُوْا آمِیْنْ۔ الخ‘‘۳؎اس میں امام کے ’’ولا الضالین‘‘ کہنے کو آمین کہنے کے لئے مقرر کیا گیا ہے، اگر جہراًا ٓمین افضل ہوتا تو خود امام کے آمین کہنے کو ذکر کیا جاتا، لہذا اس روایت کا ظاہر آمین آہستہ کہنے پر دال ہے۔ اس کے جواب میں حضرت ابو ہریرہ ہی کی روایت پیش کی جاتی ہے،’’اِذَا أمَّنَ الْاِمَامُ فَاَمِّنُوْا‘‘ لیکن اس میں جہر کی صراحت نہیں، بلکہ یہ بتایا گیا ہے کہ تأمین اُس وقت ہونی چاہیے جب امام آمین کہے، اور اس کا طریقہ پچھلی روایت میں بیان کردیا گیا کہ ولا الضالین کہنے کے بعد آمین کہہ دیاجائے ،( اس لئے کہ امام اسی وقت آمین کہتا ہے) تو درحقیقت پچھلی روایت اس روایت کے لئے مفسر ہے، اور دونوں کے مجموعہ سے حنفیہ ہی کے مسلک کی تائید ہوتی ہے۔ ------------------------------ ۱؎:الاعراف:۵۵۔ ۲؎:یونس:۸۹۔ ۳؎:صحیح بخاری :التفسير ؍باب غير الْمغضوبِ علَيهم ولا الضالين ۔