موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
قیامہ کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ہدایت فرمائی کہ قرآن کریم کو یاد رکھنے کے لئے آپ ﷺ کو عین نزولِ وحی کے وقت جلدی جلدی الفاظ دہرانے کی ضرورت نہیں ، اللہ تعالیٰ خود آپ میں ایسا حافظہ پیدا فرمادے گا کہ ایک مرتبہ نزولِ وحی کے بعد آپ(ﷺ) اُسے بھول نہیں سکیں گے، چنانچہ یہی ہوا کہ ادھر آپ پر آیاتِ قرآنی نازل ہوتیں اور اُدھر وہ آپﷺ کو یاد ہوجاتیں، اس طرح سرکارِ دو عالم ﷺ کا سینۂ مبارک قرآن کریم کا سب سے زیادہ محفوظ گنجینہ تھا، جس میں کسی ادنی غلطی یا ترمیم و تغیر کا امکان نہیں تھا، پھر آپ مزید احتیاط کے طور پر ہر سال رمضان کے مہینے میں حضرت جبرئیل کو قرآن سنا یا کرتے تھے اور جس سال آپ ﷺ کی وفات ہوئی اس سال آپ ﷺ نے دو مرتبہ حضرت جبرئیل کے ساتھ دور کیا۔۱؎صحابہ کرام میں قرآن سیکھنے کا شوق: پھر آپﷺ صحابۂ کرام کو قرآن کریم کے معانی کی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے، بلکہ انہیں اس کے الفاظ بھی یاد کراتے تھے، اور خود صحابۂ کرام کو قرآن کریم سیکھنے اور اسے یاد رکھنے کا اتنا شوق تھا کہ ہر شخص اس معاملہ میں دوسرے سے آگے بڑہنے کی فکر میں رہتا تھا، بعض عورتوں نے اپنے شوہروں سے سوائے اس کے کوئی مہر طلب نہیں کیا کہ وہ انہیں قرآن کریم کی تعلیم دیں گے، سینکڑوں صحابہ نے اپنے آپ کو ہر غم ما سوا سے آزاد کرکے اپنی زندگی اسی کام کے لئے وقف کردی تھی، وہ قرآن کریم کو نہ صرف یاد کرتے بلکہ راتوں کو نماز میں اسے دہراتے رہتے تھے، حضرت عبادہ بن صامتفرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص ہجرت کرکے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ آتا تو آپ ﷺ اُسے ہم انصاریوں میں سے کسی کے حوالے فرمادیتے ، تاکہ وہ اسے قرآن سکھائے، اور مسجد نبویﷺ میں قرآن سیکھنے سکھانے والوں کی آوازوں کا اتنا شور ہونے لگا کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ تاکید فرمانی پڑی کہ اپنی آوازیں پست کرو، تاکہ کوئی مغالطہ پیش نہ آئے۔۲؎ چنانچہ تھوڑی ہی مدت میں صحابۂ کرام کی ایک ایسی بڑی جماعت تیار ہوگئی جسے قرآن کریم از برحفظ تھا، اس جماعت میں خلفائے راشدین کے علاوہ حضرت طلحہ، حضرت سعد، حضرت ابن مسعود، حضرت حذیفہ بن یمان، حضرت سالم مولیٰ ابی حذیفہ، حضرت ابو ہریرہ، حضرت معاویہ، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت عبداللہ بن السائب، حضرت عائشہ، حضرت حفصہ، حضرت اُم سلمہ وغیرہ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ------------------------------ ۱؎:صحیح بخاری مع فتح الباری:۹ ؍ ۳۶۔ ۲؎:مناہل العرفان: ۱ ؍ ۲۳۴۔