موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
﴿إِنَّهٗ مِنْ سُلَيْمَانَ وَإِنَّهٗ بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ،أَلَّا تَعْلُوْا عَلَيَّ وَأْتُوْنِيْ مُسْلِمِيْنَ ﴾۱؎ ’’یہ خط سلیمان کی طرف سے ہے اور یہ اللہ کے نام کے ساتھ ہےجورحمٰن (اور) رحیم ہے ،زور نہ کرو میرے مقابلہ میں اور چلے آؤ میرے سامنے حکم بردار ہوکر۔ اس بسم اللہ کےبارے میں تو سب متفق ہیں کہ یہ آیتِ نمل کا جزء ہے۔ لیکن جو تسمیہ سورۂ فاتحہ اور دیگر سورتوں کے شروع میں ہے وہ ان سورتوں کا جزء ہے یا نہیں ؟اس بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔صاحبِ روح المعانی نے اس سلسلہ میں دس اقوال نقل فرمائے ہیں: امامِ ابوحنیفہ ،امامِ مالک ،امامِ اوزاعی، اہلِ بصرہ اور اہل مدینہ یہ کہتے ہیں کہ سورہ نمل کے علاوہ تسمیہ کسی سورت کا جزء نہیں ہے،بلکہ یہ مستقل آیت ہے ،ہر سورت کے شروع میں بطورِ تبرک کے پڑھی جاتی ہے۔۲؎احناف کے دلائل دلیلِ اول تو وہ روایات ہیں جن میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو آواز سے نہ پڑھنا صراحت کے ساتھ آیا ہے، کیونکہ بسم اللہ کو آواز سے نہ پڑھنا اس کے سورۂ فاتحہ کا جُز ونہ ہونے کی علامت ہے ،جیسے حضرت عبد اللہ ابن مغفل نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ،حضرت ابوبکر،حضرت عمر اور حضرت عثمان کے ساتھ نماز پڑھی ہے مگر ان میں سے کوئی بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم کو آواز سے نہیں پڑھتے تھے،۳؎ دوسری دلیل حضرت انس سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ حضرت ابوبکر حضرت عمر اور حضرت عثمان نماز کا ا ٓغاز الحمد للہ رب ------------------------------ ۱؎:النمل:۳۰ و ۳۱۔ ۲؎:روح المعانی:۱/۱۔ ۳؎: سنن ترمذی:ابواب الصلاۃ؍ باب ما جاء في ترك الجہرِ ببسم الله الرحمن الرحيم ۔ٍ