موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
ہو،چاند، سورج اور ستارے یہ بظاہر بڑے ہیں،لیکن وہ تمہارے کام کے لئے بنائے گئے ہیں، تمہارے لئے مسخر کئے گئے ہیں،تم اُسے دیوتا سمجھ رہے ہو،یہ سب کی سب مخلوق ہیں،یہ تو اللہ کی وحدانیت اور ربوبیت کو بتانے والے ہیں، لیکن تم نے انہیں ہی معبود بناڈالا،اب جب تم نے اس پر قدم رکھا تو وہاں رب ذوالجلال کی وحدانیت سجھ میں آئی،اس کی کاریگری نے اسلام قبول کرنے پر مجبور کردیا۔حضرت صوفی غلام محمد صاحب کا ایک ملفوظ: ہمارے والد صاحب(صوفی غلام محمدصاحب) فرمایا کرتے تھے کہ سبحان اللہ، الحمدللہ، لاالٰہ الا اللہ یہ اسلام کے گُر ہیں۔ یعنی پوری بحث کو ایک ایک جملے میں پرو دیا گیا ہے۔ ہر چیز سے مخلوق کی نفی ’’سبحان اللہ‘‘ میں ہے۔سب کچھ کرنے والے اللہ ہیں، اس کا بیان ’’الحمدللہ‘‘ میں ہے ، اس لیے آدمی کو ’’سبحان اللہ‘‘کہنے سے آدھا ثواب ملتا ہے (نصف المیزان) اور ’’الحمدللہ‘‘ کہنے سے پورا مل جاتا ہے۔ ان جملوں سے اللہ تبارک وتعالیٰ نےتوحیدسکھلائی، ذہن بنایا، ہماری فکر بنائی،اور اپنا تعلق ہمیں نصیب فرمایا،اس لئےہر وقت سورۂ فاتحہ کے اس کلمہ کا ورد رکھنا چاہئے۔حضور ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند فرماتے ہیں کہ بندہ ایک لقمہ کھائے تو الحمدللہ کہے اور ایک گھونٹ پانی پیئے تو الحمدللہ کہے۔ کھانا کھانے کے بعد جو دعا ہمیں سکھلائی گئی اس میں بھی الحمدللہ ہی ہے،اور درمیان میں بھی آدمی کو الحمدللہ ہی پڑھنا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی نعمت آدمی کو ملتی ہے تب بھی الحمد للہ ہی کہنا ہے۔ اگر کسی پر نعمت کا ظہور ہو تو وہاں ماشاء اللہ(جو اللہ نے چاہا) کہنا ہے، اس لیے کہ یہ تمہاری نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے تمہیں ملی ہے ، یعنی خدا نے جو چاہا وہ تمہیں دیا، تا کہ لینے والا دینے والے کی طرف سے نظر ہٹاکر اللہ تعالیٰ کی طرف کرلے۔