موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
(۴)قرآن کریم کا ایک بڑا حصہ لوگوں کے سوالات کے جوابات اور مختلف واقعات سے متعلق ہے اس لئے ان آیتوں کا نزول اسی وقت مناسب تھا جس وقت وہ سوالات کئے گئے، یا وہ واقعات پیش آئے، اس سے مسلمانوں کی بصیرت بھی بڑھتی تھی، اور قرآن کریم کی غیبی خبریں بیان کرنے سے اس کی حقانیت اور زیادہ آشکارا ہوجاتی تھی ۔ ۱؎شان نزول: قرآن کریم کی آیتیں دو قسم کی ہیں، ایک تو وہ آیتیں ہیں جو کوئی خاص واقعہ یا کسی کا کوئی سوال وغیرہ اُن کے نزول کا سبب نہیں بنا، دوسری آیات ایسی ہیں کہ جن کا نزول کسی خاص واقعہ کی وجہ سے یا کسی سوال کے جواب میں ہوا، جسے ان آیتوں کا پس منظر کہنا چاہئے، یہ پسِ منظر مفسرین کی اصطلاح میں ’’سببِ نزول‘‘ یا ’’شانِ نزول‘‘ کہلاتا ہے، مثلاً سورۂ بقرہ کی آیت ہے: ﴿وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ وَلَأَمَةٌ مُؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُّشْرِكَةٍ وَّلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ﴾ ’’مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں، اور بلاشبہ ایک مؤمن کنیز ایک مشرکہ سے بہتر ہے خواہ مشرکہ تمہیں پسند ہو‘‘۔ یہ آیت ایک خاص واقعہ میں نازل ہوئی تھی، زمانہ جاہلیت میں حضرت مَرثَدبن ابی مَرثَد غنویکے عناق نامی ایک عورت سے تعلقات تھے، اسلام لانے کے بعد یہ مدینہ طیبہ چلے آئے، اور وہ عورت مکہ مکرمہ میں رہ گئی ،ایک مرتبہ حضرت مرثد کسی کام سے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے تو عناق نے انہیں گناہ کی دعوت دی، حضرت مرثدنے صاف انکار کرکے فرمایا کہ اسلام میرے اور تمہارے درمیان حائل ہوچکا ہے، لیکن اگر تم چاہو تو میں آنحضرت ﷺ سے اجازت کے بعد تم سے نکاح کرسکتا ہوں، مدینہ طیبہ تشریف لاکر حضرت مرثدنے آپ ﷺ سے نکاح کی اجازت چاہی اور اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، جس میں مشرک عورتوں سے نکاح کی ممانعت کردی گئی۔۲؎ یہ واقعہ مذکورہ بالا آیت کا ’’شانِ نزول‘‘ یا’’سببِ نزول‘‘ ہے، قرآن کریم کی تفسیر میں ’’شانِ نزول‘‘ نہایت اہمیت کا حامل ہے، بہت سی آیتوں کا مفہوم اس وقت تک صحیح طور سے سمجھ میں نہیں آسکتا جب تک اُن کا شانِ نزول معلوم نہ ہو۔ ------------------------------ ۱؎ :تفسیر کبیر: ۶ ؍ ۳۳۶ ۔ ۲؎:اسباب النزول للواحدی، ص ۳۸۔