موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتے ہیں حمدنی عبدی، لیکن ا س میں ’’بسم اللہ ‘‘ کا تذکرہ نہیں ہے جو بسم اللہ کے سورۂ فاتحہ کا جزو نہ ہونے کی دلیل ہے۔کیا تسمیہ جہراً پڑھی جائے گی؟: بسم اللہ سے متعلق ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ کیا سورۂ فاتحہ سے قبل بسم اللہ جہری نمازوں میں آہستہ پڑھی جائے گی یا بلند آواز سے؟ سورۂ فاتحہ میں سات آیتیں ہیں جیساکہ گزشتہ احادیثِ مبارکہ سے آپ کو معلوم ہوچکا ہوگا،تو جن ائمہ نے بسم اللہ کو سورۂ فاتحہ کا جز بنایا ہے وہ﴿صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ﴾سے لے کر﴿ولاالضآلین﴾ تک ایک ہی آیت مانتے ہیں تاکہ بسم اللہ کو شامل کرنے سے سات آیات مکمل ہوجائیں ،پس جب ان لوگوں نے بسم اللہ کو سورۂ فاتحہ میں داخل مانا تو یہ بھی کہدیا کہ جہری نمازوں میں چونکہ سورۂ فاتحہ آوازسے پڑھی جاتی ہے اسلئے بسم اللہ بھی بلند آواز سے پڑھنا چاہئے،کیونکہ اگر اس کو سورۂ فاتحہ کا جز مان کر اس کی ایک آیت کو آہستہ پڑھیں اور بقیہ آیات کوبلند آواز سے پڑھیں تو ظاہر ہے کہ یہ صحیح نہیں ہے۔اور نہ کوئی اس کا قائل ہے۔مسلکِ حنفیہ اور اس کے دلائل: امام ابوحنیفہ کے نزدیک بسم اللہ سورۂ فاتحہ کا جز نہیں ہے، اس لیے بسم اللہ الرحمن الرحیم کو آہستہ پڑھا جائے گا اور سورۂ فاتحہ کو جہر سے پڑھا جائے گا۔اس کے علاوہ باضابطہ طور پر احادیث میں تسمیہ کےآہستہ پڑھنے کے دلائل بھی موجود ہیں،چنانچہ حضرت انس سے روایت ہے: