موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
ہوجاتی ہیں، بہت سی عقل کے ذریعہ اور جو باتیں ان دونوں ذرائع سے معلوم نہیں ہوسکتیں اُن کا علم وحی کے ذریعہ عطا کیا جاتا ہے۔ذرائعِ علم کا دائرۂ کار: علم کے ان تینوں ذرائع میں ترتیب کچھ ایسی ہے کہ ہر ایک کی ایک خاص حد اور مخصوص دائرہ کار ہے، جس کے آگے وہ کام نہیں دیتا،چنانچہ جو چیزیں انسان کو اپنے حواس سے معلوم ہوجاتی ہیں اُن کا علم نِری عقل سے نہیں ہوسکتا، مثلاً ایک دیوار کو آنکھ سے دیکھ کر آپ کو یہ علم ہوجاتا ہے کہ اس کا رنگ سفید ہے، لیکن اگر آپ اپنی آنکھوں کو بند کرکے صرف عقل کی مدد سے اس دیوار کا رنگ معلوم کرنا چاہیں تو یہ ناممکن ہے، اسی طرح جن چیزوں کا علم عقل کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے وہ صرف حواس سے معلوم نہیں ہوسکتیں، مثلاً آپ صرف آنکھوں سے دیکھ کر یا ہاتھوں سے چھو کر یہ پتہ نہیں لگا سکتے کہ اس دیوار کو کسی انسان نے بنایا ہے، بلکہ اس نتیجے تک پہنچنے کے لئے عقل کی ضرورت ہے۔ غرض جہاں تک حو اس خمسہ کام دیتے ہیں وہاں تک عقل کوئی رہنمائی نہیں کرتی، اور جہاں حو اس خمسہ جواب دیدیتے ہیں وہیں سے عقل کا کام شروع ہوتا ہے، لیکن اس عقل کی رہنمائی بھی غیر محدود نہیں ہے، یہ بھی ایک حد پر جاکر رُک جاتی ہے، اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا علم نہ حواس کے ذریعہ حاصل ہوسکتا ہے اور نہ عقل کے ذریعہ، مثلاً اسی دیوار کے بارے میں یہ معلوم کرنا کہ اس کو کس طرح استعمال کرنے سے اللہ تعالیٰ راضی اور کس طرح استعمال کرنے سے ناراض ہوگا، یہ نہ حواس کے ذریعہ ممکن ہے نہ عقل کے ذریعہ ،اس قسم کے سوالات کا جواب انسان کو دینے کے لئے جو ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے اسی کا نام وحی ہے، اور اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کسی کو منتخب فرما کر اسے اپنا پیغمبر قراردیدیتا ہے اور اس پر اپنا کلام نازل فرماتا ہے، اسی کلام کو ’’وحی ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس سے واضح ہوگیا کہ وحی انسان کے لئے وہ اعلیٰ ترین ذریعۂ علم ہے جو اسے اس کی زندگی سے متعلق اُن سوالات کا جواب مہیا کرتی ہے جو عقل اور حواس کے ذریعہ حل نہیں ہوسکتے، لیکن ان کا علم حاصل کرنا اس کے لئے ضروری ہے، اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ صرف عقل اور مشاہدہ انسان کی رہنمائی کے لئے کافی نہیں بلکہ اس کی ہدایت کے لئے وحی الہی ایک ناگزیر ضرورت ہے ، اور