موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
کے واقعات کے سلسلے میں وہ تفصیلات مسلمانوں کے سامنے بیان کرتے تھے جو انہوں نے اپنے پرانے مذہب کی کتابوں میں دیکھی تھیں، یہی تفصیلات اسرائیلیات کے نام سے تفسیر کی کتابوں میں داخل ہوگئی ہیں، حافظ ابن کثیر نے جو بڑے محقق مفسرین میں سے ہیں، انہوں نے لکھا ہے کہ اسرائیلیات کی تین قسمیں ہیں: (۱)وہ روایات جن کی سچائی قرآن و سنت کے دوسرے دلائل سے ثابت ہے، مثلاً فرعون کا غرق ہونا اور حضرت موسیٰ کا کوہِ طور پر تشریف لے جانا وغیرہ۔تو ایسی روایتیں صحیح ہیں، ان کو بیان کیا جاسکتا ہے ۔ (۲)وہ روایات جن کا جھوٹ ہونا قرآن و سنت کے دوسرے دلائل سے ثابت ہے، مثلاً اسرائیلی روایات میں یہ مذکور ہے کہ حضرت سلیمان اپنی آخری عمر میں (معاذ اللہ) مرتد ہوگئے تھے، اس کی تردید قرآن کریم سے ثابت ہے، ارشاد ہے کہ ’’وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلٰكِنَّ الشَّيَاطِيْنَ كَفَرُوْا ‘‘(اورسلیمان کا فر نہیں ہوئے،بلکہ شیاطین نے کفر کیا) اسی طرح مثلا اسرائیلی روایات میں مذکور ہے کہ (معاذ اللہ) حضرت داؤد نے اپنے سپہ سالار اور یاکی بیوی سے زنا کیا، یا اُسے مختلف تدبیروں سے مرواکر اس کی بیوی سے نکاح کرلیا، یہ بھی کھلا جھوٹ ہے اور اس قسم کی روایتوں کو غلط سمجھنا لازم ہے۔ (۳)وہ روایات جن کے بارے میں قرآن و سنت اور دوسرے شرعی دلائل خاموش ہیں، جیسے کہ تورات کے احکام وغیرہ، ایسی روایات کے بارے آنحضرت ﷺ کی تعلیم یہ ہے کہ ان کے بارے میں سکوت اختیار کیا جائے، نہ اُن کی تصدیق کی جائے اور نہ تکذیب ، البتہ اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ آیا ایسی روایات کو نقل کرنا جائز بھی ہے یا نہیں ؟ حافظ ابن کثیر نے قول فیصل یہ بیان کیا ہے کہ انہیں نقل کرنا جائز تو ہے، لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں ،کیونکہ شرعی اعتبار سے وہ حجت نہیں ہے ۔۱؎تفسیر بالرائےکا حکم: علمِ تفسیر سے متعلق ایک اہم مسئلہ تفسیر بالرائے کا ہے،اس کی حقیقت اور اس کے حکم سے بھی واقفیت ضروری ہے۔ ------------------------------ ۱؎ :تفسیر ابن کثیر: ۱ ؍ ۳۱۔