موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
اللہ پاک کے کلام کو سننے کا مطلب: یہاں اللہ پاک کے سننے سے مراد اللہ پاک کا بندے کو قریب کرنا، اس کو عمدہ بدلہ دینا ، اس کی تلاوت کو قبول کرنا اوراس سے راضی ہونا ہے ۔جیساکہ علامہ عینی نے کہا ہے: وَاسْتِمَاعُ اللهِ مَجَازٌعَنْ تَقْرِيْبِهٖ الْقَارِىَ وَإجْزَالِ ثَوَابِهٖ أوْ قَبُوْلُ قِرَاءَتِهٖ۔۱؎ رہی یہ بات کہ اس میں نبی کی کیوں تخصیص کی گئی ہے؟تو علماء نے اس بارے میں لکھا ہے کہ چونکہ نبی سب سے زیادہ اللہ کا محبوب ہوتا ہے اور اللہ پاک سے زیادہ قریب ہوتا ہے اور ساری کائنات میں وہ سب سے افضل ہوتا ہے اس لئے اللہ پاک ان کی طرف جتنی توجہ فرماتے ہیں اتنی کسی اور کی طرف نہیں فرماتے اور ان سے جتنا راضی ہوتے ہیں اتنا کسی اور سے راضی نہیں ہوتے اور ان کو جتنا قریب کرتے ہیں اتنا کسی اور کوقریب نہیں کرتے ۔ بہر حال مقصود قرآن پاک کی اہمیت کو بتانا ہے۔ جو بندہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت کرتا ہے حق تعالیٰ شانہ کی خاص توجہ اُس پر ہوتی ہے۔ جب تک بندہ خود دوسری طرف متوجہ نہیں ہوتا اللہ تبارک و تعالیٰ بندے کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔ اسی لیے جتنی عظمت اور استحضار کے ساتھ اس کی طرف ہم متوجہ ہوں گے اللہ تعالیٰ شانہ اس کو ہمارے دل و دماغ پر اتنا ہی کھولیں گے۔ بزرگوں نے فرمایا ہے کہ اصل چیز دل کا قرآن پاک کے مضامین کو قبول کرنا اور دل میں اُن مضامین کا آنا شروع ہوجانا ہے۔ گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب ------------------------------ ۱؎: عمدۃ القاری: باب قول الله تعالى ولا تنفع الشفاعة عنده ۔و شرح ابی داؤد للعینی:باب کیف یستحب الترسل فی القرآن،رقم:۱۴۴۳۔