موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
غرض ابتدائے اسلام میں زیادہ زور حفظِ قرآن پر دیا گیا، اور اس وقت کے حالات میں یہی طریقہ زیادہ محفوظ اور قابل اعتماد تھا، اس لئے کہ اس زمانے میں لکھنے پڑہنے والوں کی تعداد بہت کم تھی، کتابوں کو شائع کرنے کے لئے پریس وغیرہ کے ذرائع موجود نہ تھے، اس لئے اگر صرف لکھنے پر اعتماد کیا جاتا تو نہ قرآن کریم کی وسیع پیمانے پر اشاعت ہوسکتی تھی، اور نہ اُس کی قابل اعتماد حفاظت ہوتی، اس کے بجائے اللہ تعالیٰ نے اہل عرب کو حافظے کی ایسی قوت عطا فرمادی تھی کہ ایک ایک شخص ہزاروں اشعار کا حافظ ہوتا تھا، اور معمولی معمولی دیہاتیوں کو اپنے اور اپنے خاندان ہی کے نہیں اپنے گھوڑوں تک کے نسب نامے یاد ہوتے تھے، اس لئے قرآن کریم کی حفاظت میں اسی قوتِ حافظہ سے کام لیا گیا، اور اسی کے ذریعہ قرآن کریم کی آیات اور سورتیں عرب کے گوشے گوشے میں پہنچ گئیں۔کتابتِ وحی: قرآن کریم کو حفظ کرانے کے علاوہ آنحضرت ﷺ نے قرآن کریم کو لکھوانے کا بھی خاص اہتمام فرمایا، حضرت زید بن ثابتفرماتے ہیں کہ میں آپ ﷺپر نازل ہونے والی وحی کی کتابت کرتا تھا، جب آپ پر وحی نازل ہوتی تو آپ ﷺ کو سخت گرمی لگتی، اور آپ ﷺ کے جسم اطہر پر پسینہ کے قطرے موتیوں کی طرح ڈھلکنے لگتے تھے، پھر جب آپ ﷺ سے یہ کیفیت ختم ہوجاتی تو میں مونڈھے کی کوئی ہڈی یا (کسی اور چیز کا) ٹکڑا لے کر خدمت میں حاضر ہوتا ، آپ لکھواتے رہتے ، اور میں لکھتا جاتا، یہاں تک کہ جب میں لکھ کر فارغ ہوتا تو قرآن کو نقل کرنے کے بوجھ سے مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے میری ٹانگ ٹوٹنے والی ہے، اور میں کبھی چل نہیں سکوں گا، بہرحال ! جب میں فارغ ہوتا تو آپﷺ فرماتے ’’پڑھو‘‘ میں پڑھ کر سناتا، اگر اس میں کوئی فروگذاشت ہوتی تو آپﷺ اس کی اصلاح فرمادیتے اور پھر اسے لوگوں کے سامنے لے آتے ۔ ۱؎چند کاتبین وحی کے نام: حضرت زید بن ثابت کے علاوہ اور بھی بہت سے صحابہ کتابتِ وحی کے فرائض انجام دیتے تھے، جن میں خلفائے راشدین، حضرت ابی بن کعب، حضرت زبیر بن عوام، حضرت معاویہ، حضرت مغیرہ بن شعبہ، حضرت خالدبن الولید، وغیرہ بطور خاص قابلِ ذکر ہیں۔۲؎ ------------------------------ ۱؎:مجمع الزوائد : ۱ ؍ ۵۶ ، بحوالہ طبرانی۔ ۲؎:تفصیل کے لئے دیکھئے فتح الباری : ۹ ؍۱۸ اور زاد المعاد : ۱ ؍ ۳۰۔