موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
تو اب بسم اللہ کا مطلب یہ ہواکہ اللہ کے نام کے ساتھ یعنی اُس ذات کے نام کی برکت سے اور اُس ذات کی مدد لے کر میں کام کرتا ہوں جو تمام خوبیوں والی ہے ، صفاتِ کمالیہ کی جامع ہے۔رحمٰن اور رحیم کے معنیٰ اور ان میں فرق: ’’اَلرَّحْمٰنِِ الرَّحِیْمِ‘‘ ’’بے حد مہربان نہایت رحم والا ‘‘۔ ’’رحمن‘‘ اور ’’رحیم ‘‘دونوں رَحْمٌ سے بنے ہیں،رحمٰن بھی مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی بہت رحم کرنے والا اور رحیم بھی مبالغہ کا صیغہ ہے اس کے معنی بھی بہت رحم کرنے والا ہے۔ لیکن دونوں میں مفسرین فرق بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رحمن کے معنیٰ عَامُّ الرَّحمةکے ہیں اور رحیم کے معنیٰ تَامُّ الرَّحْمَةاور خاص الرَّحمة کے ہیں، یعنی رحمٰن وہ ہے جس کی رحمت عام ہو ،چونکہ دنیا میں اللہ پاک کی رحمت سب کو عام ہوتی ہے،اس کی رحمت سے نہ کوئی مستثنیٰ ہوتا ہے اور نہ کوئی محروم، مومن، مشرک،ملحد،اور کافرسب اس کی رحمت میں شامل ہوتے ہیں،اس لئے اللہ پاک کو دنیا کے اعتبار سے رحمن کہا جاتا ہے۔چونکہ رحمن کے معنیٰ میں عمومیت پائی جاتی ہے اور اس کی رحمت میں سب شامل ہوتے ہیں اس لئے صفتِ ’’رحمن ‘‘صرف اللہ کی خصوصیت ہے، اللہ کے علاوہ کسی میں بھی یہ بات نہیں ہے کہ اس کی رحمت سب پرہو اس لئے رحمن سوائے اللہ کے کسی کا نام نہیں ہے،اور نہ کسی کے لئے صرف رحمن کہنا جائز ہے۔ جیسے نوال الرحمٰن اگر کسی کا نام ہے،تو اُس کوصرف ’’رحمن ‘‘ کہنا غلط ہے۔ رحیم کے معنی تام رحمت اور خاص رحمت کے ہیں،چونکہ آخرت میں اللہ کی رحمت خاص ہوگی، کفار، مشرکین، ملحدین اور دہریوں کو شامل نہیں ہوگی اس لئے اللہ