موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
ابراہیم صاحبِ تعلق،خلیل اللہ تھے، ایک معنی میں اللہ تعالیٰ پر ناز کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ بھی اُن کے ساتھ محبت کا اظہار فرمارہے ہیں، ناز ہی میں اتنی بڑی بات اللہ تعالیٰ سے پوچھ بیٹھے کہ مجھے دکھلا دیجیے کہ آپ کیسے زندہ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ٹھیک ہے ہم آپ کو دکھلادیتے ہیں۔ ﴿فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِفَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰى كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءًاثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِيْنَكَ سَعْيًا ،وَاعْلَمْ أَنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ﴾ ’’ فرمایا تو پکڑ لے چار جانور اڑنے والے پھر ان کو بلالے اپنے ساتھ پھر رکھ دے ہر پہاڑ پر ان کے بدن کا ایک ایک ٹکڑا پھر ان کو بلا چلے آوینگے تیرے پاس دوڑتے ہوئےاور جان لے کہ بیشک اللہ زبردست حکمت والا ہے۔ حضرت ابراہیم نے چار پرندوں کو ذبح کیا، اُن کے ٹکڑے کئے اور چار پہاڑوں پر رکھ دیے اور ایک جگہ کھڑے ہوکر جب اپنی طرف بلایا تو تمام پرندوں کے اجزا الگ الگ ہوکر اپنے اپنے گوشت کے ساتھ جڑ گئے، پھر اُن پر پَر آگئے اور وہ اُڑ کر حضرت ابراہیم کے پاس پہنچ گئے۔اصحابِ کہف کا واقعہ: اللہ پاک نے اسی مضمون کو سمجھانے کے لئے اصحاب کہف کا واقعہ بھی بیان فرمایا۔ وہ پانچ، چھ یا سات نوجوان تھے۔ یہ لوگ حضرت عیسیٰ پر ایمان لے آئے کیونکہ انہیں کا زمانہ تھا۔ اُس وقت کا بادشاہ اور اُس کے حواری کافر تھے۔اور وہ لوگ جو بھی مسلمان ہوتا اس کو قتل کردیتے اور سخت سے سخت سزائیں دیتے، یہ نوجوان وزراء کی اولاد تھے۔ ان لوگوں کو اپنے ایمان کو بچانا تھا لہٰذا یہ لوگ وہاں سے چل کر ایک پہاڑ کی غار میں چلے گئے۔ ان لوگوں نے سوچا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے، ہماری جان بھی چلی