موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
آمین بالجہر تعلیمًا ہے: (۵)اس کے علاوہ اگر ہم آنحضرت ﷺسے آمین جہراً ثابت مانیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے لوگوں کو تعلیم دینے کے خیال سے لفظ آمین زور سے فرمایاتھا، جیسا کہ متعدد روایات میں مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ بعض اوقات سری نمازوں میں بھی قرأت کا ایک آدھ کلمہ زور سے پڑھ دیتے تھے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ آپ ﷺ کیا پڑھ رہے ہیں، بالخصوص حضرت وائل بن حجر کا تعلق یمن سے تھا وہ صرف ایک دو مرتبہ مدینہ طیبہ آئے تھے، اس لئے کچھ بعید نہیں کہ آپ ﷺ نے اُن کو سنانے کی غرض سے آمین جہرا ًکہا ہو۔ اس کی تائید اُس روایت سے بھی ہوتی ہے جو حافظ ابو بشر الدولابی نے ’’کتاب الاسماء والکنی‘‘ میں تخریج کی ہے، اس روایت میں وائل بن حجر فرماتے ہیں:’’فَقَالَ آمِیْنْ یَمُدُّ بِھَا صَوْتَہٗ مَا اُرَاہُ اِلَّا لِیُعَلِّمَنَا‘‘ میں سجھتا ہوں کہ آپ ﷺ نے ہم کو تعلیم دینے کی غرض سے کیا۔ اسی طرح حضرت ابوہریرہ،حضرت عمراور حضرت ابن عباس سے بھی بغرض تعلیم جہراً تعوذ وغیرہ پڑھنا ثابت ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم کی غرض سے کبھی صحابہ کرام بھی آواز سے آمین فرماتے تھے، اور یہ طریقہ آنحضرتﷺ کے عمل کو دیکھ کر اختیار کیا گیا تھا۔۱؎آمین بالجہر معمول بہ ہوتا تو صرف ایک ہی صحابی راوی کیوں؟ نیز یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اگر آنحضرت ﷺ کا عام معمول آمین بالجہر کا ہوتا تو یہ جہر دن میں کئی مرتبہ تمام صحابہ سنتے اور اس کی روایت حد تو اتر تک پہنچ چکی ہوتی، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ سے جہر کو روایات کرنے والے حضرت وائل ------------------------------ ۱؎:آثار السنن:باب الجہر بالتامین:۱۳۹۔