موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
بہر حال بات یہ چل رہی تھی کہ جواعمال حضور ﷺ کے لئے مخصوص تھے،ان میں آپ کی اتباع نہیں کی جائے گی،لیکن اس کے علاوہ اعمال میں حضورکی اتباع کی جائےگی، اب اس کی شرعی حیثیت الگ الگ ہوگی،کبھی وہ فعل فرض،کبھی واجب ، کبھی مسنون اور کبھی مستحب ہوگا،لیکن آدمی اتباع کی نیت سے کرے گا تواس کو ثواب ضرور ملےگا۔ مثلاً حضور ﷺ سر میں تیل لگاتے تھے۔ اب لوگ کہتے ہیں کہ سر میں تیل لگانے سےتیل دماغ تک نہیں پہونچتا، کیونکہ سر کے چاروں طرف سخت ہڈی ہے، تیل کھوپڑی کے اندر اُترتا نہیں ہے، لہٰذا سر میں تیل لگانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایک طرف آپ ڈاکٹر کی یہ ریسرچ رکھ دیجئے،اور دوسری طرف آپ خود سر میں تیل لگاکر دیکھئے آپ کو کتنا سکون ملتا ہے؟کتنی پر سکون نیند آتی ہے؟ جبکہ ڈاکٹری کی کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ دماغ میں تیل جانے کا راستہ نہیں۔ اگر حضورﷺ یہ فرماتے کہ سر میں تیل لگانے سے تیل دماغ میں جاتا ہے تب آپ کو اعتراض ہوسکتا تھا۔ آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا۔ بس آپ کا یہ عمل منقول ہے کہ آپ ﷺ سر میں تیل لگاتے تھے۔ اب یہ کس راستے سے دماغ میں جاتا ہے؟ کیسے آپ کو راحت پہنچتی تھی؟ اللہ تعالیٰ نے اُس کا کیا طریقہ رکھا ہے؟ وہ ہمیں نہیں معلوم اب اگر ہم اس پر اتباع سنت کی نیت سے عمل کریں گے تو ثواب بھی ملے گا اور فائدہ بھی محسوس ہوگا۔آپ کا یہ عمل ظاہر ہے کہ ایک دنیوی حاجت کے لئے ہے،لیکن آپ اس معاملہ میں بھی ہمارے لئے نمونہ اور اسوہ ہیں۔سننِ عادیہ پر اعتراض کی وجہ: یہاں لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟اس میں کیا حکمت تھی؟یہ صرف دنیوی کام تھا ،یہ آپ کی سنن عادیہ میں سے ہے،سننِ ہادیہ میں سے نہیں ہے،دین سے اس کا کوئی تعلق نہیں،وغیرہ وغیرہ۔ علماء نے لکھا ہے کہ یہ سوال