موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
لفظِ باللہ میں دو باتوں کا اقرار ہے (۱)اللہ پاک کی قدرت کا کہ اللہ پاک ہرخیر اور ہر شر کے دفاع پر قادر ہیں۔(۲)اللہ پاک ہر حاجت کو پورا کرنے والےہیں،مصیبت کو دور کرنے والے ہیں،پس جب بندہ اس کا خیال اور تصور کرتا ہے تو’’فَفِرُّوْا اِلَی اللّٰہِ‘‘ کا مضمون اس کے ذہن میں جاگزیں ہوتاہے اور اللہ پاک اس کے ذہن میں مستحضر ہوجاتے ہیں،اور یہ حالت اور کیفیت لفظ اعوذ کہنے پر پیدا ہوتی ہےجو کہ مطلوب ہے۔دوسرا نکتہ: اعوذ باللہ کہنے میں اپنے نفس کی عاجزی کا اقرار ہوتا ہے،اور عجزِ نفس کے اقرار سے اللہ پاک کی قدرت کا اقرار ہوتا ہے ،اور اللہ پاک کے قرب کا بہترین وسیلہ اور ذریعہ سوائے عاجزی اور انکساری کے کچھ نہیں ہے،جیساکہ ایک روایت میں ہے:’’مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ‘‘۱؎ یعنی جس نے اپنےنفس کے عجز وقصور کو پہچان لیا تو اس نے اپنے رب کی قدرت کو پہچان لیا،اور جس نے اپنے نفس کی جہالت کو پہچان لیا تواس نے اپنے رب کےعلم فضل اور عدل کو جان لیا ،اور جس نے اپنے نفس کی فناء کو پہچان لیا تو اس نے اپنے رب کے کمال اور بقاکو پہچان لیا۔ ------------------------------ ۱؎:تفسیرِرازی:۱/ ۸۲۔(امام نووی اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ کلام نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں ہے البتہ اس کے معنی صحیح ہیں وَقَالَ النَّوَوِيُّ إِنَّهٗ لَيْسَ بِثَابِتٍ يَعْنِیْ عَنِ النَّبِیِّﷺ وَإِلَّا فَمَعْنَاهُ ثَابِتٌ فَقَدْ قِيْلَ مَنْ عَرَفَ نَفْسَهٗ بِالْجَهْلِ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهٗ بِالْعِلْمِ وَمَنْ عَرَفَ نَفْسَهٗ بِالْفَنَاءِ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهٗ بِالْبَقَاءِ وَمَنْ عَرَفَ نَفْسَهٗ بِالْعَجْزِ وَالضَّعْفِ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهٗ بِالْقُدْرَةِ وَالْقُوَّةِ۔)الاسرار المرفوعہ فی الاخبار الموضوعۃ:۱؍۳۵۲۔)اور یہ کلام یحیی بن معاذ رازی کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ (المقاصد الحسنۃ فی بیان کثیر من الاحادیث المشتھرۃ علی الالسنۃ:۱ ؍۶۵۷)