موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
(۲)افعال کا اختلاف؛ کہ کسی قرأت میں صیغۂ ماضی ہے، کسی میں مضارع اور کسی میں امر مثلاً ایک قرأت میں’’رَبَّنَا بَاعِدْ بَیْنَ اَسْفَارِنَا‘‘ہے اوردوسری میں’’رَبَّنَا بَعَّدَ بَیْنَ اَسْفَارِنَا‘‘۔ (۳)وجوہِ اعراب کا اختلاف؛ جس میں اعراب یعنی زیر زبر پیش کا فرق پایا جاتا ہے، مثلاً ’’لَا يُضَارَّ كَاتِبٌ‘‘کی جگہ’’ لَا يُضَارُّ كَاتِبٌ ‘‘اور’’ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيْدُ‘‘ کی جگہ’’ ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيْدِ ‘‘ (۴)الفاظ کی کمی بیشی کا اختلاف، کہ ایک قرأت میں کوئی لفظ کم اور دوسری میں زیادہ ہو مثلاً ایک قرأت میں ’’تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ‘‘اور دوسری میں ’’تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ ‘‘۔ (۵)تقدیم وتاخیر کا اختلاف: ایک قرأت میں کوئی لفظ مقدم ہے اور دوسری میں مؤخر ہے، ’’وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ‘‘اور’’وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْحَقِّ بِالْمَوْتِ‘‘ ۔ (۶)بدلیت کا اختلاف: ایک قرأت میں ایک لفظ ہے اور دوسری قرأت میں اس کی جگہ کوئی دوسرا لفظ مثلاً ’’فَتَبَیَّنُوْا‘‘ اور’’فَتَثَبَّتُوْا‘‘، اور طَلْحٍ اور طَلْعٍ۔ (۷)لہجوں کا اختلاف: جس میں تفخیم، ترقیق، امالہ، مد، قصر، ہمز، اظہار اور ادغام وغیرہ کے اختلافات داخل ہیں، یعنی اس میں لفظ تو نہیں بدلتا، لیکن اس کے پڑھنے کا طریقہ بدل جاتا ہے مثلاً مُوْسٰی کو ایک قرأت میں مُوْسَیْ کی طرح پڑھا جاتا ہے۔ بہرحال: اختلافِ قرأت کی ان سات نوعیتوں کے تحت بہت سی قرأتیں نازل ہوئی تھیں اور ان کے باہمی فرق سے معنی میں کوئی قابلِ ذکر فرق نہیں ہوتا تھا، صرف تلاوت کی سہولت کے لئے ان کی اجازت دی گئی تھی۔ شروع میں چونکہ لوگ قرآن کریم کے اسلوب کے پوری طرح عادی نہیں تھے، اس لئے اِن سات اقسام کے دائرے میں بہت سی قرأتوں کی اجازت دیدی گئی تھی، لیکن آنحضرتﷺ کا معمول تھا کہ ہر سال رمضان میں جبرئیل کے ساتھ قرآن کریم کا دور کیا کرتے تھے، جس سال آپ ﷺ کی وفات ہوئی اس سال آپﷺ نے دو مرتبہ دور فرمایا، اس دور کو ’’عرصۂ اخیرہ‘‘ کہتے ہیں، اس موقع پر بہت سی قرأتیں منسوخ کردی گئیں ، اور صرف وہ قرأتیں باقی رکھی گئیں جو آج تک تواتر کے ساتھ محفوظ چلی آتی ہیں۔علم قرأت کی بنیاد: حضرت عثماننے تلاوتِ قرآن کے معاملہ میں غلط فہمیاں رفع کرنے کے لئے اپنے عہد خلافت میں قرآن کریم کے سات نسخے تیار کرائے اور ان سات نسخوں میں تمام قرأتوں کو اس طرح