موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
’’فَاِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ‘‘۱؎ ’’گناہوں کو کوئی بھی معاف نہیں کرسکتا سوائےآپ کے ‘‘نعمتوں میں استعانت کی صورت: بہرحال بندہ کا ایک حال معافی کا ہوتاہے،ایک حال حاجتوں کاہوتا ہے،ایک حال مصیبتوں و پریشانیوں کاہوتا ہے، ایک حال نعمتوں کاہوتا ہے،ہر حالت میں استعانت الگ الگ ہوتی ہے۔ سب حالتوں میں بندہ اللہ تعالیٰ کا محتاج ہوتاہے۔نعمتوں میں استعانت یہ ہے کہ اس کا شکر کیا جائے،اگر آدمی شکر ادا نہیں کررہا ہے بلکہ نعمتوں کی ناشکری کر رہا ہے تو ایک وقت یہ نعمت اس کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔مصیبتوں میں استعانت کی صورت: آج دنیا میں مسلمان ہر جگہ پریشانی اور مصیبت میں مبتلا ہیں،ہر آدمی الگ الگ پریشانی میں مبتلا ہے،کوئی جانی ، کوئی مالی،کوئی بیماری کوئی کسی قسم کی پریشانی میں گھرا ہوا ہے۔اس مصیبت کے وقت استعانت کا طریقہ صبر ہے۔ ﴿ اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ ،إِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصَّابِرِيْنَ﴾۲؎ ’’ تم مدد چاہو صبر سے،بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔‘‘ اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ سے ایک غلط استدلال: ایک صاحب تقریر کررہے تھے کہ اللہ کے غیر سے مدد مانگی جاسکتی ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ خود فرمارہے ہیں :’’اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ‘‘مدد مانگو صبر اور نماز سے۔ جب صبر اور نماز جاندار نہیں ہیں اور اُن سے مدد لے سکتے ہیں تو پھر جاندار سے کیوں نہیں مدد لے سکتے؟ بندۂ خدا کو یہی سمجھ میں نہیں آیا کہ صبر اور صلوٰۃ سے مدد لینے کا مفہوم کیا ہے۔ ------------------------------ ۱؎:صحیح بخاری:باب فضل الاستغفار۔ ۲؎:البقرۃ:۱۵۳۔