موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
کوئی شانِ نزول یا کوئی اور فقہی یا کلامی مسئلہ نہیں ہوتا، اس لئے اُن کی تفسیر میں آنحضرت ﷺ یا صحابہ و تابعینکے اقوال منقول نہیں ہوتے، چنانچہ اُن کی تفسیر کا ذریعہ صرف لغت عرب ہوتی ہے اور لغت ہی کی بنیاد پر اس کی تشریح کی جاتی ہے، اس کے علاوہ اگر کسی آیت کی تفسیر میں کوئی اختلاف ہو تو مختلف آراء میں محاکمہ کے لئے بھی علم لغت سے کام لیا جاتا ہے۔۶۔تدبر اور استنباط: تفسیر کا آخری مأخذ’’تدبر اور استنباط‘‘ہے، قرآن کریم کے نکات واسرار ایک ایسا بحرِ ناپیدا کنار ہے، جس کی کوئی حد ونہایت نہیں، چنانچہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اسلامی علوم میں بصیرت عطا فرمائی ہو وہ جتنا اس میں غور و فکر کرتا ہے اُتنے ہی نئے نئے اسرار ونکات سامنے آتے ہیں، چنانچہ مفسرین کرام اپنے اپنے تدبر کے نتائج بھی اپنی تفسیروں میں بیان فرماتے ہیں، لیکن یہ اسرار و نکات اسی وقت قابل قبول ہوتے ہیں جبکہ وہ مذکورہ بالا پانچ مآخذ سے متصادم نہ ہوں، لہذا اگر کوئی شخص قرآن کی تفسیر میں کوئی ایسا نکتہ یا اجتہاد بیان کرے جو قرآن و سنت ، اجماع ،لغت یا صحابہ و تابعین کے اقوال کے خلاف ہو یا کسی دوسرے شرعی اصول سے ٹکراتا ہو تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ، بعض صوفیاء نے تفسیر میں اس قسم کے اسرار و نکات بیان کرنے شروع کئے تھے،لیکن اُمت کے محقق علماء نے انہیں قابل اعتبار نہیں سمجھا، کیونکہ قرآن و سنت اور شریعت کے بنیادی اصولوں کے خلاف کسی کی شخصی رائے ظاہر ہے کہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔۱؎اسرائیلیات کا حکم ’’اسرائیلیات ‘‘اُن روایتوں کو کہتے ہیں جو اہل کتاب یعنی یہودیوں اور عیسائیوں سے ہم تک پہنچی ہیں، پہلے زمانے کے مفسرین کی عادت تھی کہ وہ کسی آیت کے ذیل میں ہر قسم کی وہ روایات لکھ دیتے تھے جو انہیں سند کے ساتھ پہنچتی تھیں، ان میں بہت سی روایتیں اسرائیلیات بھی ہوتی تھیں، اس لئے اُن کی حقیقت سے واقف ہونا بھی ضروری ہے، ان کی حقیقت یہ ہے کہ بعض صحابۂ کرام اور تابعین پہلے اہل کتاب کے مذہب سے تعلق رکھتے تھے، بعد میں جب وہ مشرف بہ اسلام ہوئے اور قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی تو انہیں قرآن کریم میں پچھلی اُمتوں کے بہت سے وہ واقعات نظر آئے جو انہوں نے اپنے سابقہ مذہب کی کتابوں میں بھی پڑھے تھے،چنانچہ وہ قرآن ------------------------------ ۱؎: الاتقان: ۲ ؍ ۱۸۴۔