موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
یہ چند باتیں تو کلامِ الٰہی کی عظمت اور اہمیت اور فوائد سے متعلق تھیں۔ اس کے بعدسورۂ فاتحہ کا آغاز کرتے ہیں : اَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ. بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِْ اَلْحَمْدُ للّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، اَلرَّحْمٰـنِ الرَّحِیْمِ، مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ، إِیَّاکَ نَعْبُدُ وإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ، اِهْدِنَــــا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ، صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلاَ الضَّالِّیْنَ. پوری سورۃ کا ترجمہ حضرت تھانوی نے یہ کیا ہے: ’’سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کو لائق ہیں جو مربّی ہیں ہر ہر عالَم کے، جو بڑے مہربان اور نہایت رحم والے ہیں، جو مالک ہیں روزِ جزا کے، ہم آپ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور آپ ہی سے درخواست استعانت کی کرتے ہیں، بتلادیجیے ہم کو راستہ سیدھا، راستہ اُن لوگوں کا جن پر آپ نے انعام فرمایا ہے، نہ راستہ اُن لوگوں کا جن پر آپ کا غضب کیاگیا اور نہ اُن لوگوں کا جو راستے سے گم ہوگئے۔‘‘ ہمارے اسلاف کی احتیاط میں سے ایک احتیاط یہ بھی ہے کہ وہ لوگ اپنی طرف سے قرآن کریم کا ترجمہ کرنے سے بہت زیادہ گریز کرتے ہیں۔ جن لوگوں کے ترجمے پر اعتماد ظاہر کیا گیا اور سب لوگوں نے اس کو تسلیم کیا وہی ترجمہ نقل کرتے ہیں۔ترجمہ بہت نازک چیز ہے۔ ترجمہ کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ کہہ رہے ہیں، ترجمہ سے ترجمانی ہوتی ہے۔ ترجمے میں نزاکت بڑھ جاتی ہے اور تھوڑے سے لفظوں کی اونچ نیچ سے مطلب بدل جاتا ہے۔ تعوذ کے بارے میں چند باتیں آپ کے سامنے ذکر کی جارہیں ،کیونکہ جب آپ قرآن کریم کی تلاوت کریں گے تو سب سے پہلے تعوذ ہی پڑھنے کا حکم ہے ، اَعُوذُ