موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
دعا پڑھیں نہیں بلکہ مانگیں: ایک ہے دعا کا پڑھنا اور ایک ہے دعا کا مانگنا، دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔جیسے بچے کتاب پڑھتے رہتے ہیں، اس کتاب میں لکھا ہوتا ہے کہ’’بیٹےنےباپ سے سائیکل مانگی،‘‘ایک صورت تو یہ ہے کہ بچہ اس کو باربار پڑھ رہا ہے،دوسری صورت یہ ہے کہ بچے نے کتاب تو ایک طرف رکھ دی ،اور اپنے باپ کے پاس جا کر سائیکل مانگنے لگا ، ظاہر ہے کہ ان دونوں صورتوں میں فرق ہے،جس طرح ان دونوں صورتوں میں فرق ہے اسی طرح دعا کے پڑھنے اور مانگنے میں فرق ہے۔ ایک یہ ہے کہ ہم ﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ﴾کہتے رہیں اور ایک یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے مانگیں کہ اے اللہ! مجھے آپ سیدھے راستے پر چلائیے۔قلب غافل سے دعا قبول نہیں ہوتی یہ دوسری صورت اصل مطلوب ہے،کیونکہ مانگنے میں تملق اور عاجزی ہوتی ہے، تورّع اور احتیاج کا اظہار ہوتا ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف کامل توجہ ہوتی ہے۔ اس طریقہ پر مانگنے سے دعا قبول ہوتی ہے، ضرورتیں پوری ہوتی ہیں،اگر غفلت اور بے توجہی کے ساتھ دعا مانگی جائے تو ایسی دعا قبول نہیں ہوتی، اسی لیے آپﷺ نے فرمایا: ’’اِنَّ اللّٰهَ لَا يَسْتَجِيْبُ دُعَاءً مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاهٍ‘‘۱؎ ’’بے شک اللہ تعالیٰ دعا کو غافل اور بے پرواہ دل سے قبول نہیں فرماتے‘‘ جیسے میں آپ سے بات کروں مگر میرے چہرے کا رُخ دوسری طرف ہو،تو کیا آپ میری طرف متوجہ ہوں گے؟ظاہر ہے کہ یہ تو بڑی بد تمیزی اور بد تہذیبی ہوگی،ایسےہی آدمی اگر اللہ تعالیٰ سے مانگے لیکن اس کا دل اللہ پاک کی طرف متوجہ نہ ہو تو یہ اللہ پاک کے ساتھ بڑی بے ادبی اور بے احترامی ہوگی،اس لئے ایسے آدمیوں کی ------------------------------ ۱؎:سنن ترمذی: الدعوات؍باب ۶۶۔