موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
متفرق آیتیں لے لے کر آرہے تھے اُن میں سے یہ آیتیں سوائے حضرت ابو خزیمہکے کسی کے پاس نہیں ملیں، ورنہ جہاں تک ان آیات کے جز و قرآن ہونے کا تعلق ہے یہ بات تو تواتر کے ساتھ سب کو معلوم تھی، کیونکہ سینکڑوں صحابہ کو یاد بھی تھیں، اور جن حضرات کے پاس آیاتِ قرآنی کے مکمل مجموعے تھے اُن کے پاس لکھی ہوئی بھی تھیں، لیکن آنحضرت ﷺ کی نگرانی میں الگ لکھی ہوئی صرف حضرت ابو خزیمہ کے پاس ملیں، کسی اور کے پاس نہیں ۔۱؎ بہر کیف، حضرت زید بن ثابت نے اس زبردست احتیاط کے ساتھ آیاتِ قرآنی کو جمع کرکے انہیں کاغذ کے صحیفوں پر مرتب شکل میں تحریر فرمایا ،۲؎ لیکن ہر سورت علیحدہ صحیفے میں لکھی گئی ، اس لئے یہ نسخہ بہت سے صحیفوں پر مشتمل تھا، اصطلاح میں اس نسخہ کو ’’اُم‘‘ کہا جاتا ہے ۔ حضرت ابوبکر کے لکھوائے ہوئے یہ صحیفے آپ کی حیات میں آپ کے پاس رہے، پھر حضرت عمر کے پاس رہے، حضرت عمر کی شہادت کے بعد انہیں ام المومنین حضرت حفصہ کے پاس منتقل کردیا گیا، پھر حضرت حفصہکی وفات کے بعد مروان بن الحکم نے اسے اس خیال سے نذر آتش کردیا کہ اس وقت حضرت عثمان کے تیار کرائے ہوئے مصاحف تیار ہوچکے تھے، اور اس بات پر امت کا اجماع منعقد ہوچکا تھا کہ رسم الخط اور سورتوں کی ترتیب کے لحاظ سے ان مصاحف کی پیروی لازم ہے، مروان بن الحکم نے سوچا کہ اب کوئی ایسا نسخہ باقی نہ رہنا چاہیے جو اس رسم الخط اور ترتیب کے خلاف ہو۔ ۳؎حضرت عثمان کے عہد میں جمع قرآن: جب حضرت عثمان خلیفہ بنے تو اسلام عرب سے نکل کر روم اور ایران کے دور دراز علاقوں تک پہنچ چکا تھا، ہر نئے علاقے کے لوگ جب مسلمان ہوتے تو وہ ان مجاہدین اسلام یا اُن تاجروں سے قرآن کریم سیکھتے جن کی بدولت انہیں اسلام کی نعمت حاصل ہوئی تھی، آپ پیچھے پڑھ چکے ہیں کہ قرآن کریم سات حروف پر نازل ہوا تھا، اورمختلف صحابۂ کرام نے اُسے آنحضرتﷺ سے مختلف قرأتوں کے مطابق سیکھاتھا، اس لئے ہر صحابی نے اپنے شاگردوں کو اسی قرأت کے مطابق قرآن پڑھایا، جس کے مطابق خود انہوں نےحضورﷺسے پڑھا تھا، اس طرح قرأتوں کا یہ اختلاف دور دراز ممالک تک پہنچ گیا، جب تک لوگ اس حقیقت سے واقف تھے ------------------------------ ۱؎:البرہان : ۱ ؍ ۲۳۴ ، ۲۳۵۔ ۲؎:اتقان : ۱ ؍ ۶۰۔ ۳؎:فتح الباری : ۹ ؍ ۱۶۔