موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
علم تفسیر کا مأخذ: تفسیر قرآن کے مآخذ کیا کیا ہیں؟ اور علم تفسیر پر جو بے شمار کتابیں ہر زبان میں ملتی ہیں انہوں نے قرآن کریم کی تشریح میں کن سرچشموں سے استفادہ کیا ہے،اور جن کے ذریعہ فن تفسیر میں مدد طلب کی جاتی ہےیہ سرچشمے کل چھ ہیں:۱۔قرآن کریم علم تفسیر کا پہلا مأخذ خود قرآن کریم ہے، چنانچہ ایسا بہت کثرت سے ہوتا ہے کہ کسی آیت میں کوئی بات مجمل اور تشریح طلب ہوتی ہے تو خود قرآنِ کریم ہی کی کوئی دوسری آیت اس کے مفہوم کو واضح کردیتی ہے، مثلاً سورۂ فاتحہ کی دُعا میں یہ جملہ موجود ہے ’’صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ‘‘ یعنی ہمیں اُن لوگوں کے راستہ کی ہدایت کیجئے جن پر آپ کا انعام ہوا، اب یہاں یہ بات واضح نہیں ہے کہ وہ لوگ کون ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایاہے، لیکن ایک دوسری آیت میں ان کو واضح طور پر متعین کردیا گیا ہے،چنانچہ ارشاد ہے: ’’أُولٰئِكَ الَّذِيْنَ أَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيِّيْنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِيْنَ ‘‘ ’’یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا ، یعنی انبیاء، صدیقین ،شہداء اور صالح لوگ‘‘ چنانچہ مفسرین کرام جب کسی آیت کی تفسیر کرتے ہیں تو سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اس آیت کی تفسیر خود قرآن کریم ہی میں کسی اور جگہ موجود ہے یا نہیں ؟ اگر موجود ہوتی ہے تو سب سے پہلے اسی کو اختیار فرماتے ہیں۔۲۔حدیث: ’’حدیث‘‘ آنحضرت ﷺ کے اقوال و افعال کو کہتے ہیں اور جیسا کہ پیچھے بیان کیا جاچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ساتھ آپ (ﷺ) کو مبعوث ہی اس لئے فرمایا تھا کہ آپ(ﷺ) لوگوں کے سامنے قرآن کریم کی صحیح تشریح کھول کھول کر بیان فرمادیں، چنانچہ آپ ﷺ نے اپنے قول اور عمل دونوں سے یہ فریضہ بحسن و خوبی انجام دیا، اور درحقیقت آپ ﷺ کی پوری مبارک زندگی قرآن ہی کی عملی تفسیرہے، اس لئے مفسرین کرام نے قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ زور حدیث پر دیا ہے، اور احادیث کی روشنی میں کتاب اللہ کے معنی متعین کئے ہیں، البتہ چونکہ حدیث میں صحیح،ضعیف اور موضوع ہر طرح کی روایات موجود ہیں