موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
کمال اور قدرت کے اعتبار سے ہوتی ہے۔ جس کے پاس جتنے کمالات ہوتے ہیں وہ اتنا ہی بڑا ہوتا ہے۔ حق تعالیٰ شانہ کے کمالات کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ حق تعالیٰ کی قدرت کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ اللہ پاک کی قدرت مطلق ہے۔مطلق کا مطلب یہ ہے کہ کوئی قید اُس میں لگی ہوئی نہیں ہے یعنی جب چاہیں، جیسا چاہیں، جس کے ساتھ چاہیں جو چاہیں کریں،تو جب اتنی عظیم اور کبریائی والی ہستی کا یہ کلام ہے تو اس کے کمالات کی کیا حد ہو گی۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’لَاتَنْقَضِیْ عَجَائِبُہٗ‘‘ ۱؎ ’’یہ کلام ایسا ہےکہ اس کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوسکتے۔‘‘ ہم ذرا اس پر غور کریں کہ یہ الفاظ وہ ذات کہہ رہی ہے جس کو علم الاوّلین و الآخرین ملا۔ جس کے علم کی کوئی حد نہیں۔ مخلوق میں جتنا علم سرکارِ دو عالم ﷺ کو دیا گیا اتنا کسی اور کو نہیں، وہ یہ فرمارہے ہیں کہ اس کے عجائبات، کمالات اور خوبیوں کی کوئی حد نہیں ہے۔ لوگ قیامت تک اس میں ڈوب کر اس کے معنی اور نکات نکالتے رہیں گے ،لیکن اس کی تہہ تک نہیں پہونچ پائیں گے،کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات لامتناہی ہے اور اُن کی صفات بھی لامتناہی ہیں ،اور یہ کلام بھی اُنہی کی صفت ہے،لہٰذا اس کےرموز اور اسرار بھی غیر متناہی ہوں گے۔قرآن مجید ام المعجزات ہے: اسی لیے اس کلام کے ذریعہ چیلنج کیا گیا ہے، یہ معجزہ ہے بلکہ معجزات کی اصل ہے،۲؎یہ کلام عاجز کردینے والاہے،پوری مخلوق اس طرح کا کلام کرنے سے عاجز ہے۔ قیامت تک بھی سارے کے سارے لوگ مل کر اس چیلنج کا جواب دینا چاہیں تو نہیں ------------------------------ ۱؎ : مستدرکِ حاکم:کتاب فضائل قرآن ۔ ۲؎: تفسیرِ بیضاوی:تحت قولہ وقالو لالا یاتیناالخ،۴؍۷۹