موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
لیکن کوئی چیز خود نہیں بنتی۔ مثلاً ماں بچے کو نہیں بناتی، ماں سے بچہ بنتا ہے،اور بنانے والے خدا ہیں۔ زمین خود غلہ نہیں دیتی بلکہ زمین سے خود اللہ تعالیٰ غلّہ نکالتے ہیں۔ آدمی اپنی بساط اور استطاعت کے مطابق اسباب اختیار کر کے چھوڑ دیتا ہے،پھر اللہ تعالیٰ اسے ابتدا سے انتہا تک تمام مراحل سے گزار کر وجود دیتے ہیں،اور پھر اس کو باقی رکھتے ہیں، پھر اس میں نفع اور نقصان کی صلاحیت پیدا کردیتے ہیں۔موجودہ دور میں انسان اپنی ترقی پر ناز کررہا ہے،آج ایسی ایسی چیزیں وجود میں آرہی ہیں کہ پہلےکبھی اس کا تصور نہیں تھا، اور آج انسان اسے اپنی تخلیق سمجھ رہا ہے ،حالانکہ اس کا خالق اور رب بھی اللہ ہی ہے: اسی کو قرآن پاک میں یوں بیان کیا گیا: ﴿وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيْرَ لِتَرْكَبُوْهَا وَزِيْنَةً وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ﴾۱؎ ’’اور اسی نے گھوڑے،خچر اور گدھے پیدا کئے تا کہ تم ان پر سوارہو اور وہ تمہارے لئے رونق و زینت بھی ہیں، وہ اور بھی چیزیں پیدا کرتا ہے جن کی تم کو خبر نہیں۔قرآن کریم کا اعجازی اسلوب: اس بات کو اللہ پاک نے ایک عجیب اسلوب سے بیان کیا اور اس انداز سے بیان کیا کہ وہ جامع بھی ہو اور سامنے والے سمجھ بھی جائیں،اللہ پاک نے اس میں اپنی مخلوقات کا ذکر فرمایا ، اگر اُس وقت اللہ تعالیٰ طیارے،گاڑیاں، کاریں، جہاز ، راکٹ اور آج کل کی ترقی یافتہ چیزوں کا تذکرہ کرتے تو صحابہ ان کو سمجھ نہ پاتے ،اس کے بجائے اللہ پاک نے فصاحت و بلاغت اورجامعیت کے ساتھ پہلے اس زمانہ کی سواریوں کا تذکرہ کیا،پھر کہا:﴿وَیَخْلُقُ مَالَاتَعْلَمُوْنَ﴾۲؎ پیدا کرتے ہیں ان چیزوں کو جو تم نہیں جانتے۔ اب اس میں وہ سب چیزیں داخل ہو گئیں جو آج کی ہوں یا آئندہ کی ہوں یا گذشتہ کی ہوں۔پس ساری مخلوق اللہ کی محتاج ہےہر چیز میں، اور اللہ بے نیاز ہیں۔ ------------------------------ ۱؎:النحل:۸۔ ۲؎: النحل:۸۔