موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
الدین‘‘میں اس کی بڑائی بیان کی گئ،اس کے بعد ’’ایاک نعبد ‘‘ میں اپنی طرف سے وفاداری کا اظہار بھی کردیا گیا اور’’ایاک نستعین‘‘ میں مدد کا مطالبہ کیا گیا،پھر سوال پیدا ہوا کہ مدد کس چیز میں چاہئے تو ’’اھدنا الصراط لمستقیم ‘‘میں اس کا تذکرہ کیا گیا کہ مجھے مدد سیدھے راستے پر چلنے میں چاہئے۔’’اھدنا الصراط المستقیم‘‘سے متعلق چند نکات پہلا نکتہ: ’’نستعین‘‘اور’’اھدنا‘‘ میں اللہ پاک نے جمع کے صیغے استعمال فرمائے ہیں،واحد کا صیغہ استعمال نہیں کیا،اس میں حکمت یہ ہے کہ اگر واحد کا صیغہ استعمال فرماتے تو مطلب یہ نکلتا کہ میں مدد چاہتا ہوں،مجھے سیدھے راستہ پر چلا دیجئے،لیکن اللہ پاک نے جمع کا صیغہ استعمال کرکے بتا دیا کہ تم صرف اپنے لئے مدد مت چاہو بلکہ سب کے لئے مددچاہو،سب کے لئے صحیح راستہ پر چلنے کی دعا مانگو،سب کے لئےخیر خواہی چاہو،صرف اپنی فکر مت کرو۔ مخلوق پر ہمدردی، اسلام کی خاص صفت ہے،اُس میں نفسا نفسی نہیں سکھائی گئی، بلکہ اُس میں یہ سکھایا گیا کہ تم دوسروں پر بھی رحم کرنے والے بنو،دوسری جگہوں پر صرف آدمی کی اپنی ذاتی غرض مقصود ہوتی ہے۔ اسلام میں یہ ہے کہ اپنی ذاتی اغراض کو قربان کرکے دوسرے کے کام آؤ، دوسرے کی بھلائی چاہو۔صرف میں ہی سیدھےراستہ پر چلوں اور کامیاب ہوجاؤں، یہ مسلمان کی شان نہیں ہے۔ مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ خود بھی جنت میں جائے اور ہزاروں اور لاکھوں کو بھی جنت میں لے کر جائے۔ کیونکہ خود غرضی جانوروں کی صفت ہوتی ہے ،جس آدمی میں ہمدردی نہ ہو ،جو صرف اپنی غرض کو مد نظر رکھتا ہو تو وہ اسلامی صفات سے خالی ہے۔اسلامی صفت یہ ہے: