موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
عہد نبوی میں کتابت کی شکل: حضرت عثمان فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا معمول یہ تھا کہ جب قرآن کریم کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو آپ کا تبِ وحی کو یہ ہدایت بھی فرمادیتے تھے کہ اسے فلاں سورت میں فلاں فلاں آیات کے بعد لکھا جائے،۱؎ اُس زمانے میں چونکہ عرب میں کاغذ کمیاب تھا، اس لئے یہ قرآنی آیات زیادہ تر پتھر کی سلوں، چمڑے کے پارچوں، کھجور کی شاخوں، بانس کے ٹکڑوں، درخت کے پتوں اور جانوروں کی ہڈیوں پر لکھی جاتی تھیں، البتہ کبھی کبھی کاغذ کے ٹکڑے بھی استعمال کئے جاتے۔۲؎ اس طرح عہد رسالت میں قرآن کریم کا ایک نسخہ تو وہ تھا جو آنحضرتﷺ نے اپنی نگرانی میں لکھوایا تھا، اگرچہ وہ مرتب کتاب کی شکل میں نہیں تھا، بلکہ متفرق پارچوں کی شکل میں تھا، اس کے ساتھ ہی بعض صحابہ کرام بھی اپنی یادداشت کے لئے آیاتِ قرآنیہ اپنے پاس لکھ لیتے تھے، اور یہ سلسلہ اسلام کے ابتدائی عہد سے جاری تھا، چنانچہ حضرت عمر کے اسلام لانے سے پہلے ہی اُن کی بہن اور بہنوئی کے یہاں ایک صحیفہ میں آیاتِ قرآنی لکھی ہوئی تھیں ۔۳؎حضرت ابوبکر کے عہد میں جمع قرآن: لیکن آنحضرتﷺ کے زمانہ میں قرآن کریم کے جتنے نسخے لکھے گئے تھے اُن کی کیفیت یہ تھی کہ یا تو وہ متفرق اشیاء پر لکھے ہوئے تھے کوئی آیت چمڑے پر، کوئی درخت کے پتے پر، کوئی ہڈی پر یا وہ مکمل نسخے نہیں تھے، کسی صحابی کے پاس ایک سورت لکھی ہوئی تھی، کسی کے پاس دس پانچ سورتیں اور کسی کے پاس صرف چند آیات، اور بعض صحابہکے پاس آیات کے ساتھ تفسیری جملے بھی لکھے ہوئے تھے۔ اس بناء پر حضرت ابوبکر نے اپنے عہد خلافت میں یہ ضروری سمجھا کہ قرآن کریم کے ان منتشر حصوں کو یک جاکر کے محفوظ کردیا جائے، انہوں نے یہ کارنامہ جن محرکات کے تحت اور جس طرح انجام دیا اس کی تفصیل حضرت زید بن ثابت نے یہ بیان فرمائی ہے کہ جنگ یمامہ کے فوراً بعد حضرت ابوبکر نے ایک روز مجھے پیغام بھیج کر بلوایا، میں ان کے پاس پہنچا تو وہاں حضرت عمر بھی موجود تھے، حضرت ابوبکر نے مجھ سے فرمایا کہ ’’عمرنے آکر مجھ سے یہ بات کہی ------------------------------ ۱؎:فتح الباری ۹ ؍ ۱۸۔ ۲؎:ایضاً : ۹؍۱۱۔ ۳؎:سیرت ابن ہشام:۱ ؍ ۳۴۳۔